بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات فوجیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ہر سال درجنوں فوجی اپنی ہی بندوقوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
سری نگر کے سول سیکرٹریٹ یا انتظامی مرکز کی حفاظت پر مامور بھارتی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے دلباغ سنگھ نامی نیم فوجی سی آر پی ایف کے ایک ہیڈ کانسٹیبل نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب اپنی ہی بندوق سے خود پر گولی چلا کر خودکشی کر لی۔
سری نگر میں سی آر پی ایف کے ترجمان نیرج راٹھور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سی آر پی ایف کی 23 ویں بٹالین سے وابستہ ہیڈ کانسٹیبل دلباغ سنگھ گذشتہ چند ہفتوں سے علیل تھے اور ان کا علاج بھی چل رہا تھا۔
انہوں نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا: 'دلباغ سنگھ نے بظاہر خودکشی کی ہے۔ دوسرے سی آر پی ایف جوانوں نے انہیں خون میں لت پت پا کر قریبی ہسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔‘
نیرج کے مطابق اکثر فوجی ذاتی یا گھریلو مسائل سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرتے ہیں تاہم انہوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ اکثر فوجی چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے ایسا اقدام اٹھاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: 'اکثر جوان ذاتی اور گھریلو مسائل کی وجہ سے ہی خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کی وجہ وقت پر چھٹی نہ ملنا نہیں ہوسکتی۔ سی آر پی ایف میں ہر ایک جوان کو چھٹی ملتی ہے۔ سبھی جوانوں نے ہولی کا تہوار جوش وخروش سے منایا۔‘
سی آر پی ایف کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی فوجی خودکشی کرتا ہے تو اس کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقات ہوتی ہیں کیونکہ ہمیں خود کشی کرنے والے فوجی کے اہل خانہ کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔
کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک مبصر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بھارتی فوجیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سخت ڈیوٹی، اپنے عزیز و اقارب سے دوری، گھریلو و ذاتی پریشانیاں، بار بار کا مواصلاتی بریک ڈاؤن اور وادی کی سڑکوں پر تعیناتی کے دوران احساس بیگانگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بھارتی حکومت نے اپنے فوجیوں کے لیے یوگا اور دیگر نفسیاتی ورزشوں کو لازمی قرار دیا ہے لیکن باوجود اس کے زیر انتظام کشمیر میں فوجیوں کی جانب سے خودکشی کے واقعات گھٹنے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں تعینات فوجیوں میں خودکشی کے علاوہ آپس کی لڑائی یا برادر کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 1990 میں شروع ہونے والی مسلح شورش کے دوران ایسی کئی وارداتیں رونما ہوئیں جن میں افسروں سمیت درجنوں فوجی مارے گئے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر عارف مغربی کا کہنا ہے کہ یہاں تعینات فوجیوں کو عام کشمیریوں کے مقابلے میں ذہنی صحت کے زیادہ مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ایک تو یہ گھر بار چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور دوسرا انہیں اپنی مرضی کے مطابق چھٹی نہیں ملتی۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'کشمیر میں تعینات فوجیوں کے ایک سال میں ذہنی صحت کے کم از کم دو چیک اپ ہونے چاہییں۔ ہم سے زیادہ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور انہوں نے اپنے گھر چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی مرضی کے مطابق چھٹی بھی نہیں ملتی، جس کی وجہ سے یہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر خودکشی جیسے اقدامات اٹھاتے ہیں'۔
اعداد وشمار کیا کہتے ہیں؟
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2010 سے 2019 تک بھارت میں 1113 فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے 1113 مشتبہ واقعات درج کیے گئے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار میں کشمیر میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تفصیلات الگ سے نہیں دی گئیں، تاہم سمجھا جا رہا ہے کہ چونکہ بھارت میں کشمیر سب سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی والا علاقہ ہے اس لیے سب سے زیادہ معاملات یہیں درج ہوئے ہوں گے۔
بھارتی وزیر مملکت برائے دفاعی امور شریپد نائیک نے گذشتہ برس دسمبر میں لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا کہ خودکشی کے ان 1113 معاملوں میں سے فوج میں 891، بھارتی فضائیہ میں 182 اور بحری فوج میں 40 اہلکاروں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ اسی مدت کے دوران فوج کی طرف سے اپنے ہی ساتھیوں کو مارنے کے 28 سے 30 واقعات جبکہ بھارتی فضائیہ میں دو واقعات پیش آئے۔
آیا سرکار کے پاس فوجی اہلکاروں کے لیے کوئی 'مینٹل ہیلتھ پالیسی' ہے؟ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر نے کہا کہ ڈیفنس انسٹی ٹیوٹ آف سائیکولوجیکل ریسرچ سال 2006 سے فوجی اہلکاروں کی طرف سے خودکشی کی وجوہات جاننے کے لیے کافی تحقیقی کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو اور ذاتی مسائل، ازدواجی پریشانیاں، ذہنی دباؤ اور اقتصادی بدحالی اہم وجوہات پائی گئیں، جو فوجی اہلکاروں کو خودکشی کے اقدام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر نے تحریری جواب میں کہا کہ آرمڈ فورسز میڈیکل سروسز کے ڈائریکٹر جنرل نے ستمبر 2008 میں فوج کے لیے مینٹل ہیلتھ پروگرام شروع کیا جس کے تحت فوجی اہلکاروں کی ذہنی صحت کی تربیت اور کونسلنگ کی جاتی ہے اور ان امور پر مختلف ورکشاپوں اور لیکچروں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
سب سے بڑا فوجی علاقہ
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے جب 5 اگست 2019 کو کشمیر سے اس کا خصوصی کردار چھینا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنے راست کنٹرول میں لایا تو ایسا کرنے سے چند دن قبل ہی بھارت کی مختلف ریاستوں سے مرکزی نیم فوجی دستوں کو کشمیر بھیجنا شروع کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ پانچ اگست کے بعد کشمیر بھیجے جانے والے نیم فوجی اہلکاروں کی صحیح تعداد عیاں نہیں کی گئی تاہم بتایا گیا تھا کہ یہ تعداد ڈیڑھ سے دو لاکھ ہوگی جن میں سے بعد ازاں طویل لاک ڈاؤن کے بعد کچھ ہزار فوجیوں کو ہی واپس بھیجا گیا۔
کشمیر میں جہاں پہلے سے ہی سات لاکھ بھارتی فوجی و نیم فوجی اہلکار تعینات تھے وہاں پانچ اگست کے بعد ان کی تعداد بڑھ کر ساڑھے آٹھ تا نو لاکھ ہوگئی۔ اضافی فوجیوں نے جنہیں کشمیر کی سڑکوں پر پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے اور کسی بھی طرح کے احتجاج کو نہ ہونے دینے کے لیے تعینات کیا گیا تھا، کے مطابق انہیں یہ کہہ کر بھارت کی مختلف ریاستوں سے کشمیر بھیجا گیا کہ وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔
اضافی فوجیوں اور نیم فوجی اہلکاروں نے پانچ اگست 2019 کے بعد وادی میں جگہ جگہ پر بنکر بنائے جن کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے مزید پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف بی جے پی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندی ختم ہو رہی ہے اور دوسری طرف آبادی والے علاقوں میں بنکر قائم کرکے لوگوں کے لیے خطرات پیدا کیے گئے ہیں۔