آج سے کم و بیش ٹھیک ایک ماہ پہلے اٹلی کے شمالی علاقے لومبارڈی کے 16 ہزار کی آبادی والے ایک چھوٹے قصبے کودونو میں شام پڑتے ہی ایک 38 سالہ نوجوان مقامی کلینک میں داخل ہوتا ہے۔
لومبارڈی اٹلی کے بہترین اور پرہجوم علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ مشہور زمانہ شہر میلان اسی شمالی علاقے میں واقع ہے، جو دنیا میں فیشن کا گڑھ اور عالمی معشیت کا بڑا ذریعہ ہے۔
سارا سال لومبارڈی سیاحوں سے کچھا کھچ بھرا رہتا ہے لیکن ابھی چونکہ دنیا ایک نئی عجیب و غریب وحشی مہلک وائرس کا شکار ہوئی ہے اس لیے لومبارڈی میں معمول کی نسبت ہجوم ذرا سا کم ہے۔ کودونو کا قصبہ بھی سیاحوں کی چہل پہل سے پررونق ہے۔ چونکہ اٹلی کے تین اطراف سمندر ہے اور شمال میں فرانس، آسٹریا، سلوینیا سے سرحد ملتی ہے، سو کرونا وائرس کے مہلک قدموں سے تاحال اٹلی کو پاک تصور کیا جا رہا تھا۔
اگرچہ ہمسایہ ممالک میں چند کیس آنا شروع ہو گئے تھے۔ بہرحال 20 فروری کی بہار کی ایک خوشگوار شام میں اٹلی کے روایتی کلچر والے کیفے اور ریستورانوں والی سڑک پر ہنستے مسکراتے چہروں اور اطالوی ذائقوں کی خوشبو کے درمیان میں سے گزرتا یہ 38 سالہ نوجوان قصبے کے سب سے بڑے کلینک کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔
نوجوان کو شدید بخار، کھانسی، بدن میں درد اور سانس لینے میں تکلیف تھی۔ فوراً اس نوجوان کے ٹیسٹ لیے گئے اور چند دن بعد رزلٹ آیا تو پتہ چلا کہ اٹلی بھی مہلک کرونا وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ آناً فاناً خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی لیکن اس سے کہیں تیزی کے ساتھ وائرس پورے لومبارڈی میں پہلے ہی اپنے پنجے گاڑھ چکا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسے جیسے لوگوں کے ٹیسٹ ہونا شروع ہوئے توں توں صورت حال خطرناک سے خوفناک ہوئی چلی گئی۔ صرف ایک ماہ میں اٹلی کرونا وائرس کے تین کیسز سے چین کے بعد سب سے زیادہ کیسز والا ملک بن گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں۔
لومبارڈی میں وائرس سے مرنے والوں کو دفنانے کے لیے نہ تابوت مل رہے ہیں نہ جنازے پڑھانے کے لیے لوگ۔ مرنے والوں کو دفنائیں کہاں کہ زمین تنگ پڑگئی ہے۔ اٹلی میں آخر صورت حال اتنی خطرناک کیسے ہوئی؟
ایک: اطالوی حکومت نے سماجی دوری کے اقدامات اور آگاہی میں تاخیر کر دی۔ باوجود اس کے کہ کرونا وائرس دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے کی اطلاعات تھیں لیکن ہسپتالوں کو اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا۔
سکول، کالج، تعلیمی ادارے فوری بند نہیں کیے گئے۔ عوامی مقامات کو کھلا رکھا گیا۔ سرحدی، سمندری اور فضائی حدود سے آمدورفت کو بند نہیں کیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وائرس تو اٹلی میں کافی پہلے سے موجود تھا۔ پہلے ٹیسٹ کے بعد مزید ٹیسٹ ہونے پر پتہ چلا کہ صورت حال تو کنٹرول سے زیادہ بگڑ چکی ہے۔
دوم: اطالوی عوام کا رویہ۔ یورپ کیا دنیا بھر کے بہترین سیاحتی، معاشی اور مذہبی مقامات کا گڑھ ہونے کے باعث سارا سال اٹلی سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ اطالوی انتہائی ملنسار، میل جول، پارٹیاں، سیروتفریح کرنے اور کھانے پینے پلانے کی شوقین قوم ہے۔ آفت جو نازل ہوئی تو اطالوی حکومت نے اپیلیں کرنی شروع کر دیں کہ خدارا سماجی دوری رکھیں لیکن عوام نے حکومت کی ایک نہ سنی۔
نتیجہ وائرس کی ٹیسٹ کِٹس بھرنے کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں کے بستر اور تابوت بھی بھرنے لگے۔ لامحالہ اطالوی حکومت نے زبردستی تعلیمی ادارے، عوامی اور سیاحتی مقامات، بارڈرز، ایئر پورٹ بند کیے اور تین اپریل تک کے لیے کرفیو سمیت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
لومبارڈی اٹلی کا ووہان بن چکا تھا۔ مریضوں کی تعداد اس قدر ہوتی چلی گئی کہ اٹلی کا صحت کا نظام کریش کر گیا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ کرفیو لاک ڈاؤن کے باوجود اٹلی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کیسز اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے؟وجہ عوامی رویہ ہے۔ ووہان کی طرح اٹلی میں کرونا وائرس کا گڑھ ہونے کے باوجود ابھی تک وہاں کے رہائشی حکومتی پابندیوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ اس لیے اطالوی حکومت نے فوج سے مدد مانگی ہے اور اب کرفیو لاک ڈاون فوج کی نگرانی میں ہوگا۔
کیا پاکستان وہی غلطیاں تو نہیں دوہرا رہا جو اٹلی نے کیں؟ کیا پاکستان اس وائرس کے خلاف پالیسی بنانے اور اقدامات کرنے میں تاخیر کا شکار تو نہیں ہو گیا؟ کیا پاکستان کا صحت کا نظام تیار ہے؟ کیا پاکستان دیگر ممالک کی غلطیوں سے سیکھ رہا ہے یا تاخیر کر رہا ہے؟
ابھی تک ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ ہمیں لاک ڈاؤن کرنا ہے یا نہیں۔ بڑا اعتراض اٹھایا گیا ڈیلی ویجرز دیہاڑی دار مزدور کا کہ وہ بےروزگار ہو جائے گا، بھوک سے مر جائے گا لیکن اگر آپ اسے کرونا وائرس کے سامنے کھلا پھینک دیں گے تو غریب مزدور یوں بھی تو مر جائے گا۔
واضح سوچ اور ٹھوس پالیسی کی عدم موجودگی میں ہی اس قسم کے لڑکھڑاتے کمزور فیصلے سامنے آتے ہیں۔ فوری طور پر ابتدا میں دو ہفتے کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جائے۔ اب تک تو قومی سطح پر کرونا وائرس فنڈز قائم ہو جانا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم بار بار فرماتے رہے ہیں کہ خیرات کرنے میں پاکستانی قوم صفِ اول کی ہے۔ پاکستان بھرا پڑا ہے دردِ دل رکھنے والے مخیر حضرات سے۔ وزیر اعظم پراثر پرزور اپیل کریں، دیکھیں کیسے لوگ دل کھول کر قومی کرونا فنڈ کو بھر دیں گے۔
ڈیم فنڈ کی طرز پر اپیل کریں اور مہم چلائیں۔ٖڈیم فنڈ کا پیسہ بھی قومی کرونا فنڈ میں ڈال دیں۔ علاقے کی پولیس، انتظامیہ، ایم پی ایز، ایم این ایز، لوکل گورنمنٹ عہدے داروں سے مل کر ہر علاقے میں ڈیلی ویجرز اور دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد کا پتہ لگایا جائے اور فنڈ کی رقم سے ان کا بندوبست کیا جائے۔
ڈیم فنڈ کے لیے سرکاری اور نجی ملازمین اگر اپنی تنخواہ کٹوا سکتے ہیں تو دیہاڑی دار مزدور اور اس کے بیوی بچوں کے لیے تنخواہ کٹوا لینا تو ربِ تعالیٰ کے نزدیک ہزار ہا عبادات سے بہتر ہوگا۔
وزیر اعظم لیڈ تو لیں۔ فیصلہ کریں، پالیسی بنائیں، اعلان کریں اور اپیل کریں۔ جس دن یہ فیصلہ ہوا میں اپنی تنخواہ دیہاڑی دار مزدور کے لیے وقف کروں گی۔ اس سال سرکاری ملازمین کی تنخواہ والا بجٹ اضافہ دیہاڑی دار مزدور کے لیے قومی کرونا فنڈ میں داخل کر دیا جائے۔
دنیا اس وقت جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان کو بھی اس جنگ سے جنگی حالات کی مانند لڑنا ہے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ہی اس ہتھ چھٹ بیماری سے ہاتھ دھونے ہیں۔ احساس پروگرام بھی موجود ہے۔
گویا ٖغریب دیہاڑی دار مزدور طبقے کے لیے سوچ سمجھ کر اچھا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ صحت کے نظام کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنائیں۔ اس سسلسلے میں خاص طور پر چین سے مدد لی جاسکتی ہے۔
حکومت اس وائرس سے لڑنے کے لیے نہ صرف چینی ماڈل اپنائے بلکہ وزیر اعظم پاکستان خود بھی چین کے صدر سے بھر پور مدد کی درخواست کریں۔ چین تواپنا دوست ہے اور جس طرح اس نے کرونا وائرس کا مقابلہ کیا ہے اس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ڈاکٹروں، نرسوں، میڈیکل سٹاف کو ہر قسم کی سہولیات میسر کریں۔ ان کا خاص خیال رکھیں۔ اس جنگ میں یہی فرنٹ لائنرز ہیں، یہی صفِ اول کے مجاہد ہیں۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں ان کا ساتھ دیں۔
ایک بات سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ ہے عوامی سماجی رویہ۔ حکومت جتنے چاہے مرضی اقدامات کر لے جب تک عوام کی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی کرونا وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ پھر خدانخواستہ وہی حال ہو گا جو اٹلی کا ہو رہا ہے تو اس کے لیے محض اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ’نہ سمجھوگے تو مر جاؤ گے اے پاکستان والو۔‘