کبریٰ خان پاکستان کی شوبز دنیا کی خوبصورت شخصیات میں سے ایک ہیں۔ 2018 میں ان کی فلم ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے، تاہم اس کے بعد وہ پردہ سیمیں سے غائب ہیں۔
اگرچہ ٹی وی پران کا ڈرامہ 'الف' کافی مقبول ہوا اور ناقدین نے بھی اسے سراہا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے کبریٰ سے ایک ملاقات میں پوچھا کہ وہ دوسال سے کہاں غائب ہیں؟ اس پر کبریٰ نے کہا کہ سال میں ایک ہی فلم ہونی چاہیے، اسی لیے وہ 'جوانی پھر نہیں آنی' کے بعد بڑے پردے پر کچھ وقفہ چاہتی تھیں اور ساتھ ہی وہ ڈرامہ ’الف‘ میں بھی کام کررہی تھیں۔
کبریٰ نے زیادہ تر ایک ماڈرن لڑکی کے کردار کیے ہیں تو 'الف' میں ایک ماضی کی اداکارہ کا کردار کرنا کتنا مشکل تھا؟ اس بارے میں کبریٰ نے کہا کہ اصل میں ان کے اندر ایک پرانی روح ہے اور وہ اکثر خود کو 60 سال کی لڑکی کہتی ہیں کیونکہ ان کی موسیقی، شاعری اور آرٹ کا شوق 60، 70 اور 80 کی دہائی کا ہے۔
کبریٰ کا حمزہ علی عباسی کی ماں کا کردار ادا کرنے پر کہنا تھا کہ ان کے جتنے بھی دوست ہیں وہ ان سبھی کی ماں ہیں، جیسے امریکی سیریز ’فرینڈز‘ میں مونیکا تھی۔
تاہم کبریٰ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ الف میں ان کے سارے سین پہلاج کے ساتھ تھے جو حمزہ کے بچپن کا کردار کررہے تھے اور حمزہ کے ساتھ ان کا کوئی سین نہیں تھا۔ 'میرے لیے اداکاری کا مطلب کم عمر نظر آنا نہیں۔ اگر کل کسی کردار میں لڑکا بننا پڑا تو بن جاؤں گی۔'
کبریٰ نے بتایا کہ ہدایت کار حسیب احسن کے ساتھ مل کر انہوں نے ’حسن جہاں‘ کا کردار بنایا کیونکہ ہم کسی کی نقل نہیں کرنا چاہتے تھے مگر ساتھ ہی 70 اور 80 کے عشرے کی ہیروئین کو بھی دکھانا مقصود تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کبرٰی نے کہا کہ ’الف‘ کی مقبولیت اگرچہ شروع میں کم تھی تاہم وقت کے ساتھ یہ بڑھی اور اس میں ایک خاص پیغام بھی تھا۔
احسن خان اور سلیم معراج کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں کبرٰیٰ نے کہا کہ احسن سے اچھی دوستی ہے اس لیے ہنستے ہنستے کام ہوگیا۔ 'سلیم معراج کے ساتھ البتہ کچھ نروس تھی مگر انہوں نے اتنا اچھا برتاؤ کیا جس سے میرے لیے کام کرنا آسان ہوگیا۔'
یہ بات شاید کم لوگ جانتے ہیں کہ کبرٰی برطانیہ کی رہنے والی ہیں اور وہ 2013 میں ایک شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں۔ ان کے پاکستان آنے کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 'ہم کہیں بھی چلے جائیں ہم پاکستانی ہی رہتے ہیں کیونکہ جو پیار یہاں ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا اور پھر شاید میرا دانہ پانی بھی یہیں لکھا ہے۔'
کبرٰی نے اپنا فنی کیریئر پاکستانی فلم ’نامعلوم افراد‘ سے شروع کیا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ نبیل قریشی نے انہیں فیس بک پر ڈھونڈا اور پھر جب ان کا آڈیشن ہوا تو وہ نبیل کی سمجھ میں نہیں آیا۔
اس کے بعد فضہ علی میرزا نے حرا مرچنٹ کا کردار ادا کرنے میں ان کی مدد کی۔ 'بعد میں مجھ سے اداکاری کروانا نبیل قریشی کا کمال تھا۔'
انہوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان آئی تھیں تو انہیں اداکاری کا معلوم تھا نہ ہی اردو ٹھیک سے آتی تھی۔
کبرٰی نے امید ظاہر کی کہ ان کی فلم ’لندن نہیں جاؤں گا‘ رواں سال عید الاضحٰی پر ریلیز ہوگی اس طرح دو سال بعد ان کی فلم آئے گی۔
ٹی وی اور فلم ساتھ ساتھ چلانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فلم کرنے میں مزہ آتا ہے اس میں بڑے پردے پر آپ کی ایک جنبشِ ابرو بھی نظر آجاتی ہے مگر 'مجھے ٹی وی سے محبت ہے کیونکہ میرا پہلا ڈرامہ’سنگِ مرمر‘ تھا۔ اس کے بعد جتنے بھی ڈرامے کیے ان سے اداکاری سیکھی۔'