ڈیجیٹل دور میں داستان گوئی کو زندہ رکھنے والے عاطف بدر

عاطف بدر کے مطابق جدید دور میں تھیٹر، سینما، سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کی مقبولیت کے باوجود لوگ خاص طور پر نوجوان اور بچے دوبارہ داستان گوئی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ایک بڑے ہال میں بچے اور نوجوان بڑی تعداد میں جمع ہیں اور سٹیج پر معروف تھیٹر آرٹسٹ اور داستان گو عاطف بدر کچھ نوجوانوں کے ساتھ ترنم میں اردو کے اشعار اور نظموں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے داستان گوئی کررہے ہیں اور ان کے ساتھ موجود نوجوان اور بچے بھی ترنم میں داستان کو دہراتے ہوئے محو رقصاں ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ اور داستان گو عاطف بدر 1993 سے تھیٹر آرٹسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں، 2010 میں انہوں نے تھیٹر اور ڈرامہ پڑھانا شروع کیا تو داستان گوئی کو بھی شامل کر لیا۔

عاطف بدر کے مطابق: ’داستان گوئی تفریح اور معلومات کا انتہائی منفرد ذریعہ ہے، جو بہت کچھ سکھاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عاطف بدر کا کہنا ہے ’جدید دور میں تھیٹر، سینما، سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کی مقبولیت کے باوجود لوگ خاص طور پر نوجوان اور بچے دوبارہ داستان گوئی کی طرف لوٹ رہے ہیں اور کئی نوجوان اب داستان گوئی سیکھنا چاہتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عاطف بدر نے کہا: ’موجودہ دور میں فلم انڈسٹری، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا کی مقبولیت کے باجود ہماری ماضی کی کئی داستانیں ان پلیٹ فارمز پر نہیں دکھائی جاتیں۔ اس لیے آج بھی کسی آرٹسٹ کی جانب سے داستان گوئی کرنے پر نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔

’نوجوان نہ صرف داستان گوئی شوق سے سنتے ہیں، بلکہ کئی نوجوان داستان گوئی کا فن سیکھنا چاہتے ہیں۔ میں جب بھی کہیں داستان گوئی کرتا ہوں تو نوجوان آ کر پوچھتے ہیں کہ وہ ایسی داستانیں کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ کس طرح داستان گو بن سکتے ہیں۔

’اس طرح نوجوانوں میں پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو رہا ہے۔‘

عاطف بدر اردو میں داستان گوئی کرتے ہوئے سامعین کی داستان میں دلچسپی کے لیے شاعری کا بھی استعمال کرتے ہیں۔

اشعار اور نظموں کے باعث سننے والے داستان میں مزید دلچسپی لیتے ہیں۔

بقول عاطف بدر: ’داستان گوئی میں اردو اشعار اور نظموں کے شامل کرنے سے داستان مزید خوبصورت ہو جاتی ہے۔ داستان گوئی کے لیے ایسے قصوں اور واقعات کا منتخب کیا جاتا ہے جو عام طور پر کتابوں میں بھی نہیں ملتے اور ٹی وی پر یا ڈراموں میں نہیں دکھائے جاتے۔

’کئی داستانیں ایسی ہیں جن کو سن کر آپ کو لگتا ہے ماضی میں جو کچھ لکھا گیا اس کو دوبارہ پڑھا جائے۔ کچھ وقت پہلے تک داستان گوئی کا سلسلہ کم ہو گیا تھا، مگر اب دوبارہ سے داستان گوئی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’داستان گوئی مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں نفیس زبان استعمال ہوتی ہے۔ خوبصورت الفاظ ہوتے ہیں اور ان واقعات کو پڑھ کر راحت محسوس ہوتی کہ کچھ ایسا پڑھا جس سے دل خوش ہو جاتا ہے۔

’اس کے علاوہ کا انداز خوبصورت ہوتا ہے اور شاعری کے باعث داستان گوئی مزید دلچسپ ہو جاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن