اطالوی حکام نے گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کو وڈ 19 کے 13 ہزار 882 مریضوں اور 803 اموات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 21 فروری اور 12 مارچ کے دوران اٹلی میں جتنے لوگ کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، ان میں 72 فیصد مرد تھے۔
اس سے قبل چین سے آنے والے اعداد و شمار نے بھی کچھ اسی طرح کی شرح پیش کی تھی۔ چین کے امراض سے روک تھام کے سرکاری محکمے کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس مردوں اور خواتین دونوں کو یکساں متاثر کرتا ہے، لیکن اس کے ہاتھوں مرنے والوں میں 65 فیصد مرد ہوتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ اگرچہ کرونا وائرس بچوں کو زیادہ متاثر نہیں کرتا، لیکن جو بچے متاثر ہوئے ان میں بھی لڑکوں کی شرح لڑکیوں سے زیادہ تھی۔
یہ بات اس لیے حیرت انگیز ہے کہ خواتین کے پھیپھڑے عام انفلوئنزا سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کی وجہ کیا ہے؟
امریکی یونیورسٹی جانز ہاپکنز سے تعلق رکھنے والی سائنس دان صابرہ کلائن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’مرد ہونا کرونا وائرس کے لیے اسی طرح کا رسک فیکٹر ہے جیسے بڑی عمر۔ لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جیسے بڑی عمر اس وائرس کے لیے رسک فیکٹر ہے، ویسے ہی مرد ہونا بھی ایک رسک فیکٹر ہے۔‘
اس کا ٹھیک ٹھیک طبی مکانزم کیا ہے؟ فی الحال اس سوال کا حتمی جواب سائنس دانوں کے پاس موجود نہیں ہے، لیکن ماہرین نے دونوں صنفوں میں اس فرق کی وجہ سمجھنے کے لیے چند نظریات ضرور قائم کر رکھے ہیں۔
سگریٹ نوشی
کرونا وائرس شدید کیسوں میں پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور اگر پھیپھڑے پہلے ہی سے متاثر ہوں تو ایسے لوگوں کے بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
ایک اور چیز جو پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے وہ تمباکو نوشی ہے اور عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں تقریباً 40 فیصد مرد سگریٹ پیتے ہیں، جب کہ سگریٹ نوش خواتین کی شرح صرف نو فیصد ہے۔
چین میں یہ فرق اور بھی نمایاں ہے، جہاں 62 فیصد مرد سگریٹ پیتے ہیں یا پہلے پیتے تھے۔ اس کے مقابلے میں صرف 3.4 فیصد چینی خواتین سگریٹ کی لت میں مبتلا ہیں۔
’زنانہ ہارمون‘
یونیورسٹی آف آئیووا میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر سٹینلی پرلمین نے چوہوں میں سارس وائرس اور مرس وائرس کے اثرات پر تحقیق کی ہے۔
یاد رہے کہ سارس اور مرس اور کو وڈ 19 کی وبا پھیلانے والا وائرس ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی کئی خصوصیات آپس میں ملتی ہیں اور ان تینوں کو کرونا وائرس کہا جاتا ہے (۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سارس اور مرس سے بھی عورتوں کی نسبت زیادہ مرد ہلاک ہوئے تھے۔)
ڈاکٹر پرلمین نے امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کو بتایا کہ نر چوہے مادہ کے مقابلے میں کرونا وائرس سے زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ان کا خیال ہے کہ اس کی ممکنہ وجہ ایسٹروجن ہارمون ہے جو مادہ کے جسم میں خارج ہوتا ہے اور خواتین میں بھی یہ ہارمون خارج ہو کر متعدد افعال سرانجام دیتا ہے، جسے ’زنانہ ہارمون‘ بھی کہا جاتا ہے (مردوں میں ایسٹروجن کا متضاد ’مردانہ ہارمون‘ ٹیسٹاسٹیرون ہے)۔
ایک امکان یہ ہے کہ ایسٹروجن کی وجہ سے خواتین کا مدافعتی نظام زیادہ متوازن انداز میں کام کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کا جسم اس کے مضر اثرات سے بچا رہتا ہے۔
زیادہ توانا مدافعتی نظام
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عورتوں کا مدافعتی نظام مردوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مردوں کے کل ڈی این اے میں صرف ایک ایکس کروموسوم پایا جاتا ہے، جب کہ عورتوں میں دو ایکس کروموسوم موجود ہوتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایکس کروموسوم پر مدافعتی نظام سے متعلق جین ہوتے ہیں اور ایک اضافی کروموسوم کی وجہ سے عورتوں کو مردوں پر برتری حاصل ہو جاتی ہے۔
خواتین کا محتاط رویہ
ایک اور وجہ معاشرتی بھی ہو سکتی ہے۔ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین گھروں پر رہتی ہیں اس لیے ان کے دوسرے لوگوں سے براہِ راست میل جول کے امکانات کم ہوتے ہیں، جن کی بنا پر وائرس پھیل رہا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ خواتین فطرتاً مردوں کے مقابلے میں زیادہ محتاط ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کے حادثات کم ہوتے ہیں۔ امریکہ میں خواتین کے مقابلے میں مرد ڈرائیوروں کا چالان ہونے کے امکانات 3.4 گنا زیادہ ہوتے ہیں، جب کہ مرد ڈرائیور کے ٹریفک حادثے میں مرنے کی شرح دس کروڑ میل میں 2.5 ہے، جب کہ خاتون ڈرائیوروں میں یہی شرح 1.7 اموات فی دس کروڑ میل ہے۔
عین ممکن ہے کہ خواتین کرونا وائرس سے بچنے کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ احتیاط کر رہی ہیں۔ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا تھا کہ عورتوں مردوں کی نسبت صفائی کا زیادہ خیال رکھتی ہیں اور زیادہ بار ہاتھ دھوتی ہیں۔ یہ کرونا وائرس سے بچنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔
قرینِ قیاس ہے کہ اوپر بیان کردہ ساری وجوہات مل کر خواتین کے کرونا وائرس سے بچانے کا سبب بنتی ہیں۔ دونوں صنفوں کے مدافعتی نظام میں فرق سمجھنے پر تحقیق جاری ہے۔ اگر یہ فرق مکمل طور پر کھل کر سامنے آ جائے تو اس سے کو وڈ 19 کے علاج پر نئی روشنی پڑ سکتی ہے۔