'جولائی 2001 میں طالبان دور ہوا کرتا تھا۔ میں کچھ دنوں کے لئے کابل آئی تو میرے ساتھ محرم کے طور پر میرا دو سال کا بیٹا تھا۔ کابل شہر میں ایک دوکان میں کپڑا خریدنے گئی تو دوکاندار نے مجھے کہا دوکان سے فورا نکل جائیں۔
میں نے پوچھا کیوں؟ اُن کا جواب تھا کہ اگر امر بالمعروف والے آئے تو مجھے اور آپ دونوں کو ماریں گے، کیونکہ آپ کے ساتھ کوئی مرد نہیں ہے اور مرد کے بغیر میں آپ کو کپڑا نہیں بیچ سکتا۔'
افغان رکن پارلیمنٹ شینکئی کڑوخیل طالبان دور کا ایک واقعہ سنا رہی تھیں۔ ’آج آٹھارہ سال بعد بھی میں نہ یہ واقعہ بھول پائی ہوں اور نہ ہی طالبان کے سیاہ دور کے دیگر واقعات جو میری دوستوں نے مجھ سے شئیر کیے۔'
جب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت چلی ہے افغان خواتین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں طالبان واپس حکومت کا حصہ نہ بن جائیں اور افغان خواتین گزشتہ اٹھارہ سال کی جدوجہد سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
بیشتر افغان خواتین نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر’افغان خواتین واپس پیچھے نہیں جائیں گی‘ کے نام سے ایک ٹرینڈ شروع کیا ہے جس میں وہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور طالبان دور کے محرومیوں کے واقعات بیان کرتی ہیں۔
سن 1996 سے اکتوبر 2001 تک افغانستان پر طالبان کی حکمرانی تھی، جنہوں نے عورتوں پر محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پاپندی عائد کی تھی اور افغان خواتین تعلیم، صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم تھیں۔ 2001 میں امریکی اور نیٹو افواج کی جانب سے طالبان کی حکومت گرانے کے بعد افغان خواتین بڑے پیمانے پر گھر سے نکلیں اور تعلیم، صحت، سیاست اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔
کابل میں رہنے والی سماجی کارکن ذکیہ وردگ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس بات چیت پر امریکہ سے مایوس ہوئی ہیں۔ کیونکہ اُن کے مطابق امریکہ کو خطرہ صرف القاعدہ سے تھا اور اب جب القاعدہ نہیں رہی تو اُنہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔
’میں ان مذاکرات کو افغانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں مانتی بلکہ یہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہیں۔ میں امریکی پالیسی پر مایوس ہوں، کیونکہ اگر وہ بون کانفرنس میں طالبان کو مدعو کرتے تو آج نہ صرف صورت حال مختلف ہوتی بلکہ ہم اتنی میتیں نہ اُٹھاتے۔'
ذکیہ وردگ کے مطابق افغان خواتین میں اس لئے زیادہ تشویش پائی جاتی ہےکہ وہ واپس پیچھے نہیں جانا چاہتیں۔
’اس طرح کی بات چیت سے پوری دنیا میں دہشت گردوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ بھی طالبان کی طرح بننے کی کوشش کریں گے۔ طالبان کو افغان حکومت، افغان عوام اور باالخصوص افغان خواتین سے بات چیت کرنی چائیے‘۔
ہیلئی کابل کے ایک پرائیوٹ سکول میں اُستاد ہیں۔ کابل سے فون پر انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کا نام سنتے ہی اُنہیں وہ ’تاریک دور‘ یاد آجاتا ہے۔
’میں اُسے تاریک دور کہوں گی کیونکہ اُس دور میں افغان خواتین کے ساتھ وہ ظلم ہوئے جن کا دنیا تصور نہیں کرسکتی۔ مجھے یاد ہے ایک دن میں اپنے گھر سے قریبی ہمسائے کے گھر جارہی تھی، جب امرباالمعروف والوں نے مجھے بغیر محرم کے دیکھ لیا اور برقعے کے ساتھ مجھ پر ڈنڈوں کی بارش کردی‘۔
افغانستان میں طالبان دور میں خواتین پر پابندیاں:
بغیر برقعے کے گھر سے نکلنے پر پابندی
بغیر محرم کہیں جانے پر پابندی
ریڈیو، ٹی وی میں خواتین اور اُن کی آواز پر پابندی
اُونچی ایڑھی والے جوتوں پر پابندی
گھر کے اندر اور باہر خواتین کی اونچی آواز پر پابندی
گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر لازمی پردے ہونے کی پابندی
خواتین کے تصویر لینے پر پابندی
اخباروں کتابوں اور رسالوں میں عورتوں کی تصاویر پہ پابندی
رکن پارلمنٹ شینکئی کڑوخیل کے مطابق افغان عوام اور افغان خواتین صلح اور امن کے خلاف نہیں، لیکن اگر یہ امن اُن پر پابندیوں اور اُن کو واپس پیچھے دھکیلنے پر آئے گا تو نہ صرف افغان خواتین بلکہ افغان عوام بھی ان کی مخالفت کریں گے۔
اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ بات چیت سے افغان حکومت بھی اس لئے نالاں نظر آرہی ہے کہ اُنہیں بائی پاس کیا گیا ہے، لیکن سب سے زیادہ افغان خواتین میں تشویش پائی جاتی ہےکہ طالبان کے آنے سے ایک بار پھر اُن کی ’آزادی‘ چھین نہ لی جائے۔
لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ بات چیت میں طالبان کے مذاکراتی ٹیم کے سابق سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے صحافیوں سے بات چیت میں اس بات پر زور دیا تھا کہ اُن کے حکومت میں آنے کے بعد خواتین کو تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ 'ہم افغان خواتین کو ہر اُس کام کی اجازت دیں گے، جو اسلام اور افغان کلچر اُنہیں دیتا ہے۔'
یونائٹیڈ سٹیٹس انسٹیٹوٹ آف پیس کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے حالیہ انتخابات میں لاکھوں خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور پارلیمنٹ کی 320 میں سے 63نشستیں خواتین نے اپنے نام کی، جن میں سے اٹھارہ خواتین وزیر یا نائب وزیر ہیں جبکہ چار اس وقت مختلف ممالک میں سفیر ہیں۔
اس رپورٹ میں افغانستان کے مختلف سکولوں اور کالجوں میں کام کرنے والی خواتین انسٹرکٹرز کی تعداد 86ہزار بتائی گئی ہے جن میں 800 خواتین سرکاری اور غیرسرکاری یونیورسٹیوں میں پروفیسر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق چھ ہزار سے زیادہ افغان خواتین جج، پراسکیوٹر، دفاعی اٹارنی، پولیس اور آرمی سے منسلک ہیں جبکہ دس ہزار صحت کے شعبے ، ایک ہزار صحافت اور گیارہ سو پچاس ملک کے طول وعرض میں مختلف کاروبار چلارہی ہیں۔