راولپنڈی میں سکول کی طالبہ مصباح علی جنہوں نے نمبر کم آنے پر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان پر پڑھائی کے سلسلے میں کوئی دباؤ نہیں ڈالا لیکن انہوں نے امتحان میں ناکامی کو دل پر لے لیا تھا۔
ریس کورس تھانے کے سب انسپکٹر لال حسین شاہ نے بتایا کہ ابتدائی ایف آئی آر میں لکھی گئی معلومات کے مطابق راولپنڈی علاقہ شاہ جیون کی رہائشی 21 سالہ مصباح دو مرتبہ پہلے بھی میٹرک کے امتحان دے چکی تھیں لیکن کمپارٹ آنے کے کے باعث دلبرداشتہ ہوگئی تھیں۔ مرحومہ کو تیسری مرتبہ سپلیمنٹری امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں رہ گئی تھی۔ سپلیمنٹری امتحان میں ایک امیدوار محض دو مرتبہ امتحان دے سکتا ہے جس میں نامکامی کے بعد اسے دوبارہ تمام امتحان دینا پڑتا ہے۔
مصباح کے والد دلشاد جو کہ ایک درزی کا کام کرتے ہیں انھوں نے بتایا کہ مصباح ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی۔ کچھ مضامین میں فیل ہونے کے بعد اُسے کہا تھا کہ اس بار نویں اور دسویں دونوں جماعتوں کا امتحان دینا ہو گا کیونکہ سپلیمنٹری امتحان کا چانس ختم ہو چکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ گھر سے دکان کے لیے نکلا تو بیگم کا فون آیا کہ مصباح نے خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے۔ گھر پہنچ کر دروازہ توڑا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ سامنے مصباح کی جھولتی ہوئی لاش تھی۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر وجاہت خان کا کہنا ہے کہ ’طلبا میں خودکشی کے بڑھتے رحجان کی سب سےبڑی وجہ ان پر خاندان کا دباؤ ہے‘۔
’بچوں نے کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں اس میں بچوں کی مرضی شامل ہونا ضروری ہے۔ والدین بچوں کو ڈاکٹریا انجینئر بنانا چاہتے ہیں یا فوج میں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن بچہ فائن آرٹ پڑھنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اس دباؤ کی وجہ سے طلبا اپنے خیالات والدین کے ساتھ شیئر نہیں کرپاتے ہیں اور نتیجتاً زندگی ختم کر دیتے ہیں‘۔
گذشتہ سال کالج کے امتحان میں نمبر کم آنے اور فیل ہونے پر چترال کے چار طلبا نے خودکشی کی تھی۔
اس کے علاوہ لاہور کی نجی یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی خودکشی نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا تھا۔
قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے فارغ التحصیل مریم ریاض کہتی ہیں کہ خودکشی کرنے والے عموما احساس محرومی کا شکار لوگ ہوتے ہیں۔
’ ہر دوسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ خاص طور پر نوجوانی میں ہارمونز کی تبدیلی کے باعث کچھ افراد میں شدت پسندی اور پرسنیلٹی ڈس آرڈر بھی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر اپنے آپ کو ناکام سمجھتے ہیں اور انھیں زندگی بے فائدہ لگنے لگتی ہے‘۔