کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر 21 مارچ کو پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کے بعد سے ترکی میں 200 سے زائد پاکستانی وطن لوٹنے کے منتظر ہیں۔
ترکی میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق ان پاکستانیوں میں سے 111 افراد وہ ہیں جن کی پاکستان واپسی کی فلائٹ منسوخ ہوگئی تھی اور اس وقت ان میں سے کچھ قرنطینہ سینٹرز اور باقی ترکی کے مختلف ہوٹلز میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو ذاتی معاملات، کاروبار یا پڑھائی کی غرض سے ترکی میں عارضی پرمٹ پر موجود ہیں۔
ان پاکستانیوں نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اس حوالے سے ہم نے ترکی کے شہر استنبول میں مقیم پاکستان کے قونصل جنرل بلال خان پاشا سے گفتگو کی۔
قونصل جنرل نے تمام صورت حال کے حوالے سے بتایا کہ ’22 مارچ کو جب ترکی سے پاکستان جانے والی پرواز منسوخ ہوئی تو 70 کے قریب پاکستانیوں نے ہم سے رجوع کیا۔ ان میں سے 45 افراد ایسے ہیں جنہیں رہائش کا مسئلہ پیش آرہا تھا تو ہم نے ترکی کے لیوینٹ ہوٹل سے بات چیت کرکے انہیں صرف 20 سے 25 ڈالرز میں ہوٹل میں رہائش دلوائی۔ اس کے علاوہ ہم نے ان کے ایک سے دو وقت کے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا ہے اور انہیں ضروری ادویات بھی فراہم کی ہیں۔‘
گذشتہ روز پاکستانی قونصلیٹ کی جانب سے لیوینٹ ہوٹل میں ٹھہرائے گئے پاکستانیوں سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ہوٹل مالکان نے انہیں ہوٹل چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے قونصل جنرل سے وضاحت مانگی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں صرف کچھ وقت پہلے ہی ہوٹل کی انتظامیہ نے اس حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ ہوٹل بند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ترکی میں کرونا وائرس کی شدت کے باعث ہوٹل کے اسٹاف نے کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس لیے اب ہم نے ان پاکستانیوں کے لیے ترکی کے مِڈمار ڈیلکس ہوٹل میں رہائش کا انتظام کیا ہے اور وہ یہاں بھی کم ریٹس میں رہ سکیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی سے تعلق رکھنے والے موسیٰ کلیم اللہ جو اپنی اہلیہ لائبہ کے ہمراہ ترکی میں پھنسے ہوئے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے اپنے مسائل کے حوالے سے جب پاکستانی قونصلیٹ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں البتہ کچھ مخیر افراد سے اگر آپ زکوۃ لینا چاہیں تو ہم اس میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘
موسیٰ کلیم للہ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ زکوۃ کے پیسے لینا نہیں چاہتے۔
اس بارے میں جب قونصل جنرل سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی قونصلیٹ کے پاس محدود فنڈز ہیں جنہیں ہم غیر قانونی تارکین وطن کے مسائل حل کرنے، میتوں کی منتقلی، حراستی مراکز کے دورے اور ہسپتال کے بل ادا کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کرونا وائرس کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی تو تقریباً دس دنوں کے لیے فنڈز الگ کیے گئے، جن سے ہم ان پاکستانیوں کی مدد کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زکوۃ کی بات درست ہے، محدود فنڈز کے باعث ہم نے یہاں پاکستان کے مخیر افراد سے رابطہ کیا تھا اور انہوں نے یہاں پھنسے ہوئے غریب پاکستانیوں کی مدد کرنے کی تجویز سامنے رکھی ہے۔‘
قونصل جنرل کے مطابق ان کی اولین ترجیح وہ پاکستانی ہیں جو ترکی کے مختلف قرنطینہ سینٹرز اور ہوٹلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ دو سے تین دن میں پاکستانیوں کو وطن واپس بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
دوسری جانب گذشتہ روز کینیڈین حکومت کی درخواست پر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو خصوصی پروازیں چلانے کی اجازت مل گئی ہے۔
پی آئی اے دو اپریل کو کراچی اور اسلام آباد سے خصوصی پروازوں کے ذریعے 620 کینیڈین مسافروں کو ٹورنٹو پہنچائے گی۔
جس کے بعد پی آئی اے کا ایک طیارہ ٹورنٹو سے استنبول جائے گا اور وہاں پھنسے ہوئے چند پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔