ایک ایسے وقت میں جب دنیا کرونا (کورونا) وائرس سے لڑ رہی ہے، بیشتر لوگوں کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ’یہ وبا کب ختم ہوگی؟‘ تاہم اس کے علاوہ بھی کچھ اور پریشان کن سوالات ہیں، جو حکومتوں سے پوچھے جانے لگے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ کہ چین میں پہلی بار کووڈ 19 سامنے آنے کے بعد مغربی حکومتوں نے اپنے ملکوں میں اس وبا کے خطرے کو کیوں نہیں بھانپا؟ کیا ماسک اور ٹیسٹ کٹس کی وافر تعداد میں تیاری کے لیے کافی اقدامات اٹھائے گئے؟ کیا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن جیسی پابندیاں دیر سے نافذ کی گئیں؟
ایسے سخت سوالات کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب دنیا ایک ہی سیاسی ڈگر پر رواں ہو۔ کیا نومبر میں امریکہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر کی حیثیت سے منتخب کر لیا جائے گا؟
پوری دنیا میں خود مختار اور نیم خود مختار معاشروں کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور یورپی یونین بریگزٹ کے بعد اپنی ساکھ دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس مہلک وبا کے بارے میں دنیا بھر کے سیاست دانوں نے فروری اور مارچ کے اوائل میں اپنے عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ ان کے ممالک پر اس وائرس کا بہت کم اثر پڑے گا۔
ٹرمپ نے فروری کے آخر میں کرونا وائرس کے بارے میں تشویش کو ڈیموکریٹس کا ایک ’جھانسا‘ قرار دیا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے، جو خود اس وائرس کا شکار بن چکے ہیں، مارچ کے اوائل میں اس خطرے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ہسپتال میں بھی سب کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں۔
برازیل کے صدر جیر بولسنارو نے اس وائرس کو ’معمولی فلو‘ قرار دے کر اس کے خطرے کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
’لوگ خوف زدہ نہیں تھے‘
پیرس سکول آف اکنامکس کی ہیلتھ اکنامکس اور ایکونومیٹرکس کی پروفیسر کیرین ملینٹ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ فروری میں اور یہاں تک کہ مارچ کے شروع میں بھی کچھ ماہرین نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ چین سے سر اٹھانے والی یہ وبائی بیماری اس حد تک پھیل جائے گی۔
انہوں نے فرانسیسی ایجنسی کو بتایا: ’جب عوام خود کسی رائے کی شدت کو نہ سمجھے اور اگر سائنس دان بھی تقسیم ہو جائیں تو سیاسی فیصلہ سازوں کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وبا کے آغاز میں چین کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار سے لوگ خوف ذدہ نہیں ہوئے اور بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ اتنے سارے اقدامات کیوں کیے جا رہے ہیں۔‘
فرانس میں، جہاں حکومت نے کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اموات کو کم کرنے کے لیے 17 مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا، شروع میں قومی اتحاد بنانے کے حکومتی مطالبے پر سخت تنقید کی گئی اور اسے ماسکس کی کمی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔
فرانس کی سینیٹ میں دائیں بازو کی حزب اختلاف کی جماعت کے سربراہ برونو ریٹیلیو نے حکومتی رد عمل کو ’افراتفری‘ قرار دے دیا تھا۔ فرانسیسی حکومت کے ارکان کے خلاف متعدد مجرمانہ شکایات درج کی گئیں، جن میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے (حفاظتی اقدامات کے ذریعے) انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔
’بہت دیر کر دی‘
واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر چارلس کپچن نے کہا کہ اگر چین گذشتہ سال وبا کے آغاز پر معلومات فراہم کر دیتا تو مغربی حکومتوں کو تیاری کا موقع مل سکتا تھا۔
’لیکن اس کے باوجود بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر آباد ملک اس وبا کو روکنے میں ناکام رہے۔۔۔ یورپ اور امریکہ کو مزید فوری اقدامات اٹھانا چاہیے تھے۔‘
'جب وہ (مغربی ملک) طبی سامان کی خریداری، اس کے لیے رقوم مختص کرنے اور ان کا اشتراک کرنے اور آئسولیشن جیسے اقدامات اٹھانے کی بات کرتے ہیں تو انھوں نے اس میں بہت دیر کر دی تھی۔‘
یورپ اور امریکہ کے عوام میں غم و غصے کی واضح علامات ہیں۔ نیو یارک کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والی سیتھس اینڈریو کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں۔ ہمارے پاس وافر تعداد میں ٹیسٹ کٹس نہیں اور ہمارے پاس حفاظتی سازوسامان بھی موجود نہیں۔ ہسپتال میں کام کرنے والا ہر فرد خطرے میں گھیرا ہوا ہے۔‘
میڈرڈ کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والی سارہ نے کہا: ’جن لوگوں کو ہم بچا سکتے تھے وہ مر رہے ہیں کیونکہ (وینٹی لیٹرز کی کمی کے باعث) انہیں انتہائی نگہداشت میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔‘
’حکومتوں کو چیلنج کا سامنا ہے‘
ان ملکوں میں بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے جہاں کئی دہائیوں سے ایک ہی حکمران اقتدار پر قابض ہیں اور جہاں عوام اس بحران کے دوران استحکام کی توقع کر رہے تھے۔
ترک صدر رجب طیب اردغان کی سربراہی میں ترک حکومت مارچ کے اوائل میں ہی فخر سے عوام کو بتا رہی تھی کہ ملک میں کرونا کا کوئی بھی تصدیق شدہ کیس نہیں، تاہم اب تک ترکی میں اس وائرس سے 200 سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔
صدر ولاد میر پوتن نے 17 مارچ کو کہا تھا کہ روس میں صورتحال قابو میں ہے لیکن کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز نے اس کے بعد سے ملک کے بیشتر حصوں میں لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور کیا ہے۔
اور ایران میں بڑھتے ہوئے بحران سے ایرانی قیادت کے ان ابتدائی بیانات کی تردید ہوتی ہے، جن میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ وبا جلد ختم ہو جائے گی۔
دریں اثنا چین اب اپنے ملک میں وبا کو بڑے پیمانے پر قابو پانے کے بعد مغربی ملکوں کو مدد کی پیش کش کر رہا ہے۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے تحقیقاتی ڈائریکٹر جیریمی شاپیرو نے چین کی اس پیش کش کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ پہلے کسی کو گولی مار دیں اور پھر اس زخمی کو علاج کی پیش کش کریں۔‘