چین میں حالات کافی خراب ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے ہی نہیں نکل رہے۔ اس وی لاگ کے لیے کچھ تصاویر اور شاٹس لینے کی غرض سے یونیورسٹی سے باہر نکلی تو سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ بیجنگ کی وہ سب وے جس میں روزانہ ایک کروڑ افراد سفر کرتے ہیں، اب تقریباً خالی ہے۔ لوگوں نے اپنے منہ ماسک سے ڈھانپ رکھے ہیں۔ بیجنگ میں رہنے والوں کے لیے ماسک پہننا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں فضائی آلودگی کی وجہ سے لوگ ماسک کا استعمال ضرور کرتے ہیں، پر اب تو جیسے یہ ماسک ان کے چہرے کا حصہ بن چکا ہے۔
بیجنگ میں رہنے والوں کو حالات ابھی نارمل لگ رہے ہیں۔ چینی نئے سال کے قریب بیجنگ خالی ہو جاتا ہے۔ دوسرے شہروں سے آ کر یہاں بسنے والے لوگ نئے سال کی خوشیاں منانے اپنے اپنے آبائی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ دو ہفتوں کے لیے بازار بالکل بند ہو جاتے ہیں۔ کہیں کہیں کوئی دکان کھلی ہوتی ہے جہاں سے بریڈ، انڈے، دودھ، کولڈ ڈرنک اور دیگر سامان خریدا جا سکتا ہے۔
ان دو ہفتوں میں ہماری زندگی بس کمرے تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے لیکن اس دفعہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہمیں اپنی نقل و حرکت کم سے کم رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ یونیورسٹی کے اندر بھی ایک ہاسٹل میں رہنے والے افراد کا دوسرے ہاسٹل میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔
بیجنگ اور ووہان کی کئی یونیورسٹیوں نے مارچ سے شروع ہونے والا نیا سمیسٹر بھی کینسل کر دیا ہے۔ جو طالب علم سردیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے ملک گئے ہوئے ہیں، انہیں فی الحال وہیں رہنے کا کہا گیا ہے۔ جو طالب علم چھٹیوں میں گھر نہیں گئے اور ابھی یونیورسٹیوں میں ہی رہ رہے ہیں، ان کا روزانہ درجہ حرارت نوٹ کیا جا رہا ہے۔
چین میں یہ وبا اس وقت پھوٹی ہے جب چینی نئے سال کی خوشیاں منانے اپنے اپنے آبائی گھر لوٹ رہے ہیں۔ اسے سال کی سب سے بڑی ہجرت کہا جاتا ہے۔ ان حالات میں اس وائرس کے پھیلنے کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔ بیجنگ، شنگھائی اور تیانجن سمیت کئی شہروں میں فرسٹ لیول پبلک ہیلتھ ایمرجنسی رسپانس نافذ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت نے ملک بھر میں ایسی تمام جگہوں کو بند کر دیا ہے جہاں لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں چاہے وہ عبادت گاہیں ہوں یا تفریحی مقامات۔ بروز اتوار بیجنگ سے دوسرے شہروں تک بس سروس اور ٹیکسی سروس بھی غیر اعلانیہ مدت تک روک دی گئی ہے۔ تاہم بیجنگ کے اندر سب وے اپنے شیڈول کے مطابق ہی چل رہی ہے لیکن صرف اکا دکا لوگ ہی سب وے سٹیشنز اور ٹرین میں نظر آتے ہیں۔
کرونا وائرس کا بڑا شکار چین کا ایک شہر ووہان ہے جو بیجنگ سے تقریباً 11 سو 51 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس وائرس کے بارے میں سائنس دان زیادہ کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی اس کی ویکسین موجود ہے۔ چینی حکام ابھی صرف اس وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ووہان سمیت ہبے صوبے کے 12 شہر سیل آف کر دیے گئے ہیں۔ ان شہروں کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں۔ شہروں کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل کر دی گئی ہے۔ چینی ائیر لائنز، ٹرین اور بس سروس کی طرف سے بک شدہ ٹکٹیں کینسل کروانے پر سو فیصد رقم واپس کی جا رہی ہے۔
حکومت ووہان سمیت دیگر بند شہروں میں اشیائے خورد و نوش کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔
ووہان میں سات ہسپتال کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں کسی دوسرے مرض میں مبتلا مریضوں کو داخل نہیں کیا جا رہا۔ کرونا وائرس کے بہت سے مریض صحت یاب بھی ہوئے ہیں جن کی ویڈیوز مقامی میڈیا پر دکھائی جا رہی ہیں۔ حکام نے ووہان میں ہزار بیڈ پر مشتمل ایک نیا ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے جس کا رقبہ 25 ہزار مربع فٹ ہے۔ اس ہسپتال کا تعمیری کام زور و شور سے جاری ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ اس ہسپتال کو 3 فروری تک فعال کر دیا جائے گا۔
چین نے ایسا ہی ایک ہسپتال 17 سال پہلے بیجنگ میں سات روز میں تعمیر کیا گیاتھا۔ 2003 میں چین پر سارس نامی تنفس کی بیماری نے حملہ کیا تھا۔ اس ہسپتال نے سارس کے 700 سے زیادہ مریضوں کا علاج کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔
چین کے محکمہ خزانہ نے اس کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے ایک ارب یوآن کی رقم مختص کی ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً 22 ارب سے زائد کی رقم بنتی ہے۔
چین میں ابلاغ کے ذرائع کافی منظم ہیں۔ ہر ایک کو سمارٹ فون اور تیز ترین انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ یہاں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ وی چیٹ ہے۔ اس ایپ کے مختلف گروپس میں کرونا وائرس کے حوالے سے آگاہی مہم چل رہی ہیں۔ چینی ٹک ٹاک پر بھی اس حوالے سے ویڈیوز موجود ہیں۔
ووہان میں مقیم پاکستانی شدید پریشان ہیں۔ وائرس کا ڈر اتنا ہے کہ ہر جعلی خبر بھی سچ لگ رہی ہے۔ بیجنگ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے انھیں چینی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ایسے لگ رہا ہے جیسے پورا چین اس وائرس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے اور اسے شکست دینے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوشش کس قدر اور کب کامیاب ہوتی ہے تب تک ہم اپنے کمروں تک محدود ہیں۔ اللہ سب کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے، آمین۔