ایک ایسے وقت میں جب کرونا (کورونا) وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس وائرس کا سامنا کرنے والے ہر ملک کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ صحت کا نظام خصوصاً وینٹی لیٹرز کتنے اہم ہیں۔
مختلف ممالک میں ماہرین اور ڈاکٹرز مختلف تجربات کرکے وینٹی لیٹرز کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان ہی میں سے ایک امریکہ کی ریاست کنیکٹیکٹ میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی سٹیٹ سینیٹر ڈاکٹر سعود انور بھی ہیں، جنہوں نے مانچسٹر میموریل ہسپتال میں اپنی ٹيم کے ہمراہ ایک وینٹی لیٹر کو تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے سات افراد کے لیے قابلِ استعمال بنایا۔
اس کامیابی کے بعد مقامی افراد نے ڈاکٹر سعود انور کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کا منفرد انداز میں شکریہ ادا کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر سعود انور نے بتایا:’میں پھیپھڑوں کا ڈاکٹر ہوں اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں مریضوں کا علاج کرتا ہوں۔ ہم نے تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ایسے سپلٹر بنائے جن کے ذریعے ایک وینٹی لیٹر کو سات یا اس سے زائد مریضوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر سعود انور کے مطابق: ’یہ ٹیکنالوجی انتہائی مفید ہے کیوں کہ اس سے وینٹی لیٹرز کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اگر ایک مشین سے سات مریضوں کی سانس لینے میں مدد کی جارہی ہے تو ایک مریض کی طبعیت خراب ہونے کی صورت میں باقی مریضوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘
پاکستان میں صحت کے نظام کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکام کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان میں زیادہ آبادی اور غربت کے باعث ہر کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ سماجی دوری اختیار کریں۔ اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ ہسپتالوں کے پاس ہر قسم کے مریض کا مکمل ڈیٹا موجود ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مریضوں کی معلومات کا نظام بہت کمزور ہے جس کے کافی سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔‘