حالیہ دنوں میں امریکہ اپنے اس بیانیے میں شدت پیدا کرتا جا رہا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس دراصل چینی شہر ووہان کی لیبارٹری سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو دونوں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایسے شواہد دیکھے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی یہ وائرس ووہان کی لیبارٹری سے آیا ہے، البتہ دونوں نے کسی قسم کا ثبوت پیش نہیں کیا۔
اس موقعے پر سوال اٹھتا ہے کہ اس لیبارٹری میں کیا ہو رہا ہے اور اس کا نام کیوں کرونا وائرس سے جوڑا جا رہا ہے؟
اس لیبارٹری کا اصل نام ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی ہے اور یہ اسی ووہان شہر میں واقع ہے جہاں سے گذشتہ برس نومبر اور دسمبر میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کووڈ 19 کا آغاز ہوا۔ لیکن یہ وائرس آیا کہاں سے؟ چار ماہ گزرنے کے بعد بھی اس بارے میں ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہو سکا۔
ابتدا ہی سے یہ قیاس آرائی کی جاتی رہی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے پینگولن میں گیا، جو ووہان کی جنگلی جانوروں کی مارکیٹ میں کہیں موجود تھا۔ اس چیونٹی خور جانور سے وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا اور پھر ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد انسان سے انسان میں پھیلنے لگا، اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔
افواہیں پھیلانا منع ہے
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی جنگلی حیات کی مارکیٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ووہان وائرولاجیکل انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیو آئی وی) واقع ہے جہاں کرونا وائرس کی تباہ کن وبا پھیلنے سے پہلے کرونا وائرس پر تحقیق کی جا رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ووہان کے سرسبز و شاداب مضافات میں چین کے تاریخی دریا یانگ سی کے قریب واقع اس لیبارٹری کی عمارت مربع شکل کی ہے اور اس کا رقبہ پونے چھ کنال کے لگ بھگ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے حال ہی میں اس عمارت کے باہر سے دیکھا تو وہاں کسی قسم کی سرگرمی نظر نہیں آئی، جس سے لگتا ہے کہ حکومت نے فی الحال اسے بند کر دیا ہے، البتہ دروازے پر ایک پوسٹر چسپاں تھا جس پر لکھا تھا: ’حفاظت اور کنٹرول کے سخت انتظامات۔ گھبرائیں نہیں، سرکاری اعلانات سنیں، سائنس پر یقین رکھیں، افواہیں نہ پھیلائیں۔‘
ووہان وائرولاجیکل انسٹی ٹیوٹ 1956 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت موجودہ چین کے قیام کو صرف سات برس گزرے تھے اور یہ چین کے ابتدائی تحقیقی اداروں میں سے ایک ہے۔
آنے والے عشروں میں یہ انسٹی ٹیوٹ مختلف مراحل سے گزرتا رہا، حتیٰ کہ 2015 میں اسے چار کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی مالیت سے اپ گریڈ کیا گیا، جس کے بعد یہ ایشیا کی واحد انتہائی سکیورٹی والی لیبارٹری بن گئی جہاں کرونا وائرس سمیت کلاس 4 کے خطرناک ترین وائرسوں پر تحقیق کی جاتی ہے۔
ناول کرونا وائرس کی پہلی بار نشاندہی
اسی لیبارٹری کو 30 دسمبر کو اطلاع ملی تھی کہ ووہان کے ہسپتالوں میں ایک نئی قسم کے نمونیا کے شکار مریض آ رہے ہیں، جس کے بعد یہاں کی وائرالوجسٹ شی ژینگلی اور ان کے ساتھیوں نے دن رات ایک کر کے اس نئے کرونا وائرس کو شناخت کر لیا بلکہ سات جنوری تک اس کا مکمل جینیاتی نقشہ بھی تیار کر لیا۔ یہ نقشہ دس جنوری کو آن لائن شیئر کیا گیا جس سے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو آسانی ہو گئی کہ اس کرونا وائرس کا مطالعہ کر سکیں۔
ڈاکٹر شی وہی خاتون ہیں جنہوں نے سارس وائرس کی اصل کا سراغ لگایا تھا اور یہ ثابت کیا تھا کہ یہ چمگادڑوں سے آیا تھا۔
ڈاکٹر شی نے جریدے ’سائنٹفک امیریکن‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ چونکہ ان کی لیبارٹری میں متعدد کرونا وائرسوں پر تحقیق ہو رہی تھی اس لیے انہیں پہلے پہل شک گزرا کہ کیں یہ نیا کرونا وائرس ان کی لیبارٹری سے تو لیکن نہیں ہوا۔
تاہم جب انہوں نے اس نئے وائرس کے جینیاتی مواد کا موازنہ اپنی لیبارٹری میں موجود وائرسوں سے کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا تعلق ان کے ادارے سے نہیں ہے۔
فرانس اور امریکہ کی پشت پناہی
یہ لیبارٹری چین نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر نہیں کی، اس سلسلے میں اسے فرانس کا تعاون حاصل رہا ہے اور فرانسیسی فرم ایلین میریو اس کی تعمیراتی کنسلٹنٹ رہی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود امریکہ نے بھی اس ادارے کی تعمیر میں دامے درمے حصہ لیا ہے اور امریکی جریدے نیوز ویک کے مطابق امریکہ کے قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) نے اس انسٹی ٹیوٹ کو چمگادڑوں میں موجود کرونا وائرسوں پر تحقیق اور ان کی فہرست سازی کرنے کے لیے 74 لاکھ ڈالر کی گرانٹ دی تھی۔ یہ پروجیکٹ 2019 میں مکمل ہوا تھا۔
اس کے علاوہ ووہان کی اس لیبارٹری کا یونیورسٹی آف ٹیکسس کی گیلوسٹن لیبارٹری کے ساتھ قریبی اشتراک رہا ہے، جس نے اسے تکنیکی اور سائنسی معلومات فراہم کی ہیں۔
چینی سائنس دان خاص طور پر کرونا وائرس پر تحقیق میں اس لیے دلچسپی رکھتے ہیں کہ 2003 میں اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے وائرس نے سارس نامی بیماری پھیلائی تھی جس میں پونے آٹھ سو کے لگ بھگ لوگ مارے گئے تھے، جن کی اکثریت کا تعلق چین سے تھا۔ یہ وائرس بھی چمگادڑ ہی سے آیا تھا۔
ووہان کی لیبارٹری کا شمار دنیا کی ان گنی چنی لیبارٹریوں میں ہوتا ہے جنہیں بائیو سیفٹی لیول 4 کا درجہ حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ہر ممکن احتیاط کی جاتی ہے کہ وائرس باہر نہ نکلنے نہ پائے اور لیبارٹری کے اندر کی ہوا اور پانی کو خاص طریقے سے فلٹر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں جانے والوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہر بار نئے حفاظتی لباس اور آلات استعمال کریں۔
یہ پروٹوکول کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، لیکن انسان سے کبھی نہ کبھی غلطی ہو ہی جاتی ہے اور حادثہ آخر حادثہ ہے، جو ہو کر رہتا ہے۔
اس سے پہلے بیجنگ کی ایک لیبارٹری سے سارس وائرس اسی طرح کی ایک غلطی کے نتیجے میں خارج ہو گیا تھا، جب کہ 2003 میں ایسا ہی ایک واقعہ سنگاپور کی ایک لیبارٹری میں بھی پیش آ چکا ہے، جب وہاں کا ایک سائنس دان سارس وائرس پر کام کرتے کرتے خود اس کا شکار ہو گیا۔
’سارس کی طرح کی وبا پھیلنے کا خطرہ‘
امریکی تعاون اپنی جگہ پر، لیکن امریکہ کو اس لیبارٹری کے بارے میں تشویش بھی رہی ہے۔ موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ نے گذشتہ ماہ خبر دی تھی کہ مارچ 2018 میں امریکہ نے ایک چینی لیبارٹری میں اپنے سائنسی مندوب بھیجے تھے جنہوں نے واپس آ کر امریکہ کو دو خفیہ کیبلز بھیجی تھیں کہ اس لیبارٹری میں حفاظتی انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں۔
اخبار نے امریکی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سے ایک کیبل میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس لیبارٹری میں چمگادڑوں میں پائے جانے والے کرونا وائرسوں پر تجربات کیے جا رہے ہیں جن سے ’سارس کی طرح کی عالمی وبا پھیلنے کا خطرہ ہے۔‘
فرانس اور چین کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ 50 سینیئر فرانسیسی سائنس دان اس لیبارٹری کے قیام کے ابتدائی پانچ برس وہاں کام کریں گے، لیکن بعد میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا جس کی وجہ سے یہ سائنس دان کبھی چین نہیں پہنچ سکے۔
ہوا یوں کہ چین نے فرانس سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے خطرناک وائرس فراہم کیے جائیں، لیکن فرانس کی فوج نے بیچ میں ٹانگ اڑا دی کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں چین انہیں جراثیمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہ کرے۔
لیکن ووہان میں یہی ایک لیبارٹری نہیں جہاں کرونا وائرس پر کام ہو رہا تھا۔ اسی شہر میں بیماریوں کی روک تھام کا ایک اور ادارہ بھی کام کر رہا ہے اور اس میں حفاظتی اقدامات لیول 4 کی طرح سخت نہیں ہیں۔
یہ ادارہ ووہان کی جنگلی جانوروں کی مارکیٹ سے صرف 300 میٹر کی دوری پر واقع ہے، جس کی بنیاد پر ایک مفروضہ یہ بھی گردش میں ہے کہ ووہان وائرولاجیکل انسٹی ٹیوٹ نہ سہی، اس قریبی ادارے سے وائرس کسی طریقے سے خارج ہو کر جنگلی جانوروں کی مارکیٹ میں سرایت کر گیا۔
کرونا وائرس انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ امریکہ کے الزامات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کرونا وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ سائنس دان تو پہلے ہی یہ ثابت کر چکے تھے کہ کرونا وائرس قدرتی ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ادارے بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ وائرس انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے، جس کی تائید صدر ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ پومپیو بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وائرس قدرتی ہی تھا، لیکن تحقیق کے دوران یہ کسی طرح لیبارٹری سے باہر نکل گیا۔
امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا چین نے اسے خود چھوڑا ہے یا یہ غلطی سے پھیلا ہے۔
امریکہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا: ’انٹیلی جنس کمیونٹی وسیع پیمانے پر ہونے والے سائنسی اتفاقِ رائے سے متفق ہے کہ کووڈ 19 کا وائرس انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکی جاسوسی ادارے ’سرگرمی سے خفیہ معلومات کا جائزہ لے رہیں ہیں کہ آیا یہ وبا کسی متاثرہ جانور کو چھونے سے پھیلی ہے یا ووہان کی لیبارٹری میں ہونے والے کسی حادثے کے نتیجے میں۔‘
خود پر الزامات کی بوچھاڑ کے جواب میں چین ہمیشہ سختی سے تردید کرتا رہا ہے کہ کرونا وائرس اس کی کسی لیبارٹری سے نکلا ہے۔ اس نے جوابی الزام لگایا ہے کہ یہ بیماری دراصل امریکہ سے نکلی ہے اور جب نومبر میں ووہان میں فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے تو اس میں شرکت کرنے والے امریکی فوجی یہ بیماری ساتھ لے کر آئے تھے۔
البتہ چین نے بھی اس الزام کے ثبوت کے طور پر کسی قسم کے شواہد پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔
-------------
ماخذات: ٹیلی گراف، واشنگٹن پوسٹ، نیوز ویک، سائنفک امیریکن، فوربز، جاپان ٹائمز، ووہان وائرولاجیکل انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ