امریکہ کے لیے پاکستانی سفیر اسد خان نے کہا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں امن کے فروغ کے لیے طالبان سے بات چیت کرنی چاہیے۔
پاکستانی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغانستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے پر تشدد حملوں کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مستقبل پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بھارتی اخبار دی ہندو کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہِ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ بھارت کے لیے طالبان سے بات کرنا 'مناسب' ہو گا۔
پاکستان افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کا مخالف رہا ہے۔ پاکستانی سفیر اسد خان نے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ 'یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اس مشورے کا کیا جواب دیتا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بھارت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو کیسے دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا 'اگر بھارت محسوس کرتا ہے کہ طالبان سے رابطہ امن عمل کے لیے مدد گار ہو سکتا ہے تو ہم یہ معاملہ ان پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔'
گو کہ انہوں نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ پاکستان کسی ایسے فیصلے کی حمایت کرتا ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے بغیر کسی شرط کے بھارت کے ممکنہ کردار کی بات کرنے کو کابل میں امن مذاکرات کے حوالے سے پائی جانے والی بین الاقوامی تشویش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اسد خان پرامید ہیں کہ وہ جلد زلمے خلیل زاد سے بات کریں گے۔ انہوں نے بھارتی میڈیا کی رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا یہ حالات کی من مانی تشریح ہے۔ پاکستان افغان امن عمل میں ایک بہت نازک کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان اپنے اثر و رسوخ کو اس حد تک دکھانے سے گریز کر رہا ہے، جس کا واشنگٹن اس پر الزام عائد کرتا رہا ہے۔
جمعرات کو افغانستان میں ہونے والے دو حملوں نے امن عمل کو مزید مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔ کابل کے ایک زچہ و بچہ ہسپتال میں حملے میں 24 افراد ہلاک ہوئے، جن میں دو نو زائیدہ بچے بھی تھے جب کہ مشرقی افغانستان میں ایک جنازے پر خود کش حملے میں 32 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکہ نے ان حملوں کا الزام داعش پر عائد کیا ہے جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے افغان فورسز کو طالبان کے خلاف دفاعی کے بجائے 'جارحانہ حکمت عملی' اپنانے پر زور دیا ہے۔