ٹوئٹر کی عجیب دنیا ہے۔ ایک ہی صفحے پر دنیا کے دانش ور اور جوکر بانہوں میں بانہیں ڈالے موجود ہیں۔ ایک ہی پلیٹ فارم ہے، جہاں ظالم اپنے ظلم کا دفاع کر رہا ہے اور مظلوم بھی اکاؤنٹ بنا کر خوش ہے کہ کچھ نہیں تو ایک ٹویٹ کی مار تو ماری۔
آئی ایس پی آر ہماری غیور افواج کا شعبہ اطلاعات ہے۔ آئی ایس پی آر ٹوئٹر پر عوام الناس کو پاکستان کی بحری، بری اور فضائی فوج کی سرگرمیوں، آپریشنز وغیرہ کے حوالے سے بتاتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ٹوئٹر ہینڈل پر کئی جوابی ٹوئٹس دیکھے تو حیرانی ہوئی۔
کوئی فضائیہ ہاؤسنگ کا متاثر رحم کی اپیل کر رہا تھا، ڈی ایچ اے ویلی کا متاثرہ شخص’اللہ سے ڈرو‘ کا بینر اٹھائے کھڑا تھا۔ کوئی بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کی چغلی لگا رہا تھا کہ اب آرمی چیف ہی بحریہ ٹاؤن کا کچھ کریں تو کریں۔
پاکستان میں اراضی کے نام پر عوام سے لوٹ مار، پھر عدالتوں میں برسوں چلنے والے مقدمات اب معمول ہیں۔ عدالتوں میں زمین کے انفرادی جھگڑے لاکھوں اور بڑے بینر تلے عوام کی جیب کتری کے مقدمات ہزاروں تک جا پہنچے ہیں، جن کے لاکھوں متاثرین پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں۔
میں نے اپنے گذشتہ کالم ’پاکستانیو! خواب لے لو خواب‘ میں سرسری طور پر ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے لکھا تھا۔ کچھ دن بعد علم ہوا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی میں میجر جنرل عامر اسلم خان (ہلال امتیاز ملٹری) کو ڈپٹی چیئرمین اور بریگیڈیئر ناصر منظور ملک کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایڈمن لگایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دل میں ایک امید سی جاگی کہ کاش یہ حضرات نیا پاکستان کی عمارت کھڑی کرنے سے پہلے پرانے پاکستان میں پلاٹوں کے لاکھوں متاثرین کو ان کا حق دلوا سکیں۔ میری تو الحمدللہ لندن کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ تاہم اس موضوع پر تفصیلی رپورٹنگ، پراپرٹی ماہرین کی رائے اور کئی متاثرین کی دہائیاں سن کر چند سفارشات مرتب کی ہیں۔
1۔ ریاست پاکستان، آئین پاکستان، قوانین پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں لیتے کہ اگر آپ زمین یا گھر کی خریداری میں الو بن گئے ہیں تو ذمہ دار کون ہوگا۔ آپ حبس زدہ عدالت اور لینڈ مافیا کے ٹھنڈے دفتر کے بیچ چکر کاٹ کاٹ کر اپنی زندگی کے قیمتی سال گنوا سکتے ہیں۔
اس لیے کسی بھی زمین پر ہاتھ رکھنے سے قبل چند ہفتوں کے لیے خود کو انٹیلی جنس کا نمائندہ سمجھتے ہوئے خوب چھان پھٹک کیجیے۔
2۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی رجسٹریشن کا شعبہ طاقت ور افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ یہاں بقول ملک ریاض کے، فائلوں کو پہیے کیسے لگائے جاتے ہیں یہ وہ خوب جانتے ہیں۔ سب سے پہلے تو رجسٹرار ہاؤسنگ سوسائٹیز کے دفتر کی طہارت ضروری ہے۔
3۔ پاکستان میں رہائشی زمینوں کا پھیلاؤ جنگلات اور زرعی زمینوں کو نگل رہا ہے۔ جہاں کل کھیت تھے وہاں پلاٹنگ کی جا رہی ہے۔ زراعت کے رقبے شہروں سے دور ہو رہے ہیں۔ نہروں کے راستے کٹ رہے ہیں، تعمیراتی سرگرمیوں سے ندیاں نالے سمٹ رہے ہیں۔
ان سب مسائل کا حل سروے آف پاکستان نامی ایک سرکاری ادارے کے پاس موجود ہے۔ یہ ادارہ وزارت دفاع کے تحت آتا ہے جو کہ ملک بھر کی زمینوں کا سروے کرتا ہے۔
سروے آف پاکستان کے تحت تمام صوبائی حکومتوں کے پاس رہائشی علاقے بسانے کی واضح پالیسی ہونی چاہیے۔ آبادی، آمدنی اور ضروریات کے اعتبار سے کتنے بڑے پلاٹ کس علاقے میں ہونے چاہییں، جہاں حکومت تمام بنیادی ضروریات دے سکے اور ان کی قیمت کیا ہوگی اس کا تعین حکومت کے ہاتھ میں ہو۔
سپریم کورٹ میں کچھ عرصہ قبل کچی آبادی کیس جب زور شور سے چلا تھا تب اربن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے یہ تمام مسائل سامنے آئے تھے مگر تب سے اب تک گہرا سناٹا ہے۔
4۔ عمران خان نے وزیر اعظم بن کر ایک بروقت فیصلہ جو لیا تھا وہ زرعی اراضی بچانے اور سستی رہائش فراہم کرنے کے لیے بہترین تھا۔ یعنیٰ کثیرالمنزلہ رہائشی پراجیکٹس کے ذریعے عمودی آبادی کا فروغ۔ یہ حکومت نیا پاکستان ہاؤسنگ پر ہماری تشویش کو غلط ثابت کرسکتی ہے اگر وعدے پر صدق دل سے عمل ہو جائے۔
5۔ پاکستان میں پراپرٹی کی قیمت کا تعین کون کرتا ہے، یہ کسی کے علم میں نہیں۔ لینڈ مافیا جس زمین کو حکومت سے اونے پونے دام خریدتی ہے یا پھر مقامی رہائشیوں کو ڈنڈے کے زور پر جس اراضی کو کوڑیوں کے دام بیچنے پر مجبور کرتی ہے اسے کروڑوں تک پہنچانا بھی ایک پوری سائنس ہے۔
سٹیٹ ایجنٹس، بلڈرز اور نام نہاد سرمایہ کار ان لینڈ مافیا کے ہرکارے ہوتے ہیں۔ یہ چاروں مل کر کسی بھی بنجر بیابان زمین کی مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کرتے ہیں، اس کی قیمت مقرر کرتے ہیں اور پھر خود ہی پراپرٹی کی فائلوں کا کاروبار کر کے اس کی قیمت لاکھوں سے کروڑوں روپے تک لے جاتے ہیں۔
ملک میں پراپرٹی کی قیمت کے تعین کے حوالے سے کوئی محکمہ کوئی بورڈ واضح پالیسی کے ساتھ موجود نہیں۔ پاکستان نیا بنے یا پرانا ہی توڑ پھوڑ کے بعد سنوار لیا جائے، ہر دو صورت میں زمین کی قیمتوں کے حوالے سے سرکاری نرخ مقرر ہونے چاہییں۔
6۔ موجودہ قوانین میں بظاہر قدغن نہیں کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک ایک شہر میں زیادہ سے زیادہ کتنی زمین خرید سکتا ہے۔ یہ اس کی طاقت پر منحصر ہے کہ وہ کتنا رقبہ گھیرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی پابندی نہیں کہ ایک ہاؤسنگ ادارہ گر کسی ایک شہر میں وعدے کے مطابق اپنے کلائنٹس کو پلاٹ یا گھر دینے میں ناکام رہے تو اسے کوئی بھی دوسرا پراجیکٹ شروع کرنے کا این او سی نہ دیا جائے۔ دونوں معاملات پر قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
اور آخر میں سول سوسائٹی، این جی اوز، وکلا اور اراضی جعل سازی کے متاثرین کے لیے ایک آئیڈیا پیش کر رہی ہوں۔ آپ نے پولیس کی جاری کردہ ریڈ بک کا نام تو سنا ہوگا جس میں پولیس کے مطلوبہ ملزمان کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ میرا آئیڈیا بھی ایسا ہی کچھ ہے۔
ملک بھر کے تمام لینڈ مافیا اور ان کے زیر التوا رہائشی منصوبوں کی ایک فہرست بنائیں۔ یہ لینڈ مافیا کی ریڈ بک کہلائے گی۔ لینڈ مافیا ریڈ بک میں ان تمام منصوبوں، سوسائٹیوں کی تفصیلات شامل ہوں، جہاں جہاں عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا گیا۔
لینڈ مافیا ریڈ بک ان تمام سیاست دانوں، وزیروں، مشیروں، بیوروکریٹس اور سرکاری افسران کو بےنقاب کرے جو اراضی سکینڈلز میں بطور ملزم نامزد ہیں۔ ریڈ بک میں ان سرکاری محکموں کی نشاندہی ہو جو لینڈ مافیا کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ اس بک میں عوام سے دھوکہ دہی کرنے والے سٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز کی تفصیلات بھی درج ہوں۔
لینڈ مافیا ریڈ بک میں ان فوجی افسران کا نام بھی جلی حروف میں لکھا جائے جو اراضی کی خرد برد میں ملوث تھے یا پھر ہیں۔ اس لینڈ مافیا ریڈ بک کو ملک بھر میں سوشل میڈیا پر غرض جہاں جہاں ممکن ہو پھیلا دیا جائے۔
جو متاثرین تیرے میرے سے اپیل کرنے پریس کلب کے باہر مظاہرے، بیواؤں کی فریادیں اور جمع پونجی لٹنے کے صدمے سے بےحال ہیں اور تمام حربے، منتیں اور خوف خدا کی دھمکیاں دے کر بھی خالی ہاتھ ہیں، وہ یہ آخری ہمت کریں اور ریڈ بک بنانے کا بیڑا اٹھائیں۔ جو بے چارے اپنی حلال کمائی لٹانے ہی والے ہیں انہیں راستہ دکھانے کی نیکی کریں اللہ آپ کے کام بھی آسان فرمائےگا۔