پی آئی اے کریش کی شام بہت سوگوار تھی ۔۔۔ راکھ، ملبہ، لاشیں اور جذبات۔۔۔قومی فضا اس قدر بوجھل تھی کہ مجھے لگا کہ اب کئی دن اسی کیفیت میں گزرنے والے ہیں۔ ماتم کرتی سوشل میڈیا کی پوسٹس ۔۔ سینہ چیرتے الفاظ۔
حسرت بھری باتیں اور جانے والوں سے جڑی یادیں یہ سب دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ہر گھر ہی صف ماتم میں بدل چکا ہے۔ میں بار بار سوچ رہی تھی کہ کرونا (کورونا) سے سب اتنے پریشان تھے اس پر یہ غم ۔۔۔ جانے ہم اتنی سوگواریت سے کیسے نکل پائیں گے؟ ابھی لاشیں ڈھونڈی جا رہی تھیں، ابھی ان مسافروں کا استقبال کرنے والے بےیقینی کی حالت میں بےبس کھڑے تھے، لواحقین ہسپتالوں کی طرف دوڑیں لگا رہے تھے ۔ کبھی کوئی کہتا یہ مسافر زندہ ہے پھر کوئی کہتا نہیں یہ زندہ نہیں ہے۔ دکھ کی سلوٹ گہری ہوتی جا رہی تھی۔
مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اب قوم اس دکھ میں بہت دیر دل گیر رہے گی۔ لیکن پھر میں نے ذرا غور سے ٹی وی سکرین اور سوشل میڈیا کی طرف دیکھا۔ غم اور جذبات کا دھارا الزامات اور جوابی الزامات کی طرف مڑچکا تھا۔ میں نے بھی بور ہو کر سوشل میڈیا اور ٹی وی آف کر دیا۔ دل میں ان لوگوں کا سوچتے سوچتے سو گئی جو بس منزل کے قریب آ کر آخری سفر کے ہو گئے۔ کتنا کٹھن تھا خاندانوں کے لیے اس صدمے کو جھیلنا۔
ہر رات کی سحر ہوتی ہے۔ اگلے دن کی صبح بھی یاسیت بھری تھی۔ طیارے میں ہونے والی اموات کی تصدیق ہو چکی تھی۔ لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے لیے جا رہے تھے۔ کچھ مسافروں کی کہانیاں شائع ہو چکی تھیں، کچھ خاندانوں کے پاس ٹی وی والے پہنچ چکے تھے۔ بہت سے لوگ اپنی ماہرانہ آرا سے سب کو نواز رہے تھے کہ طیارے کو ممکنہ طور پر کیا مسائل تھے اور ایسا کیا ہوا کہ طیارہ گر گیا۔
کرونا کے لاک ڈاؤن میں واٹس ایپ سے ٹوئٹر اور ٹوئٹر سے ٹی وی کا سفر معمول سا بن گیا تھا۔ کچھ پوسٹس پڑھنے کے بعد جب میں واٹس ایپ کے گروپس کی طرف متوجہ ہوئی تو طیارے سے متعلق پوسٹس کافی پرانی ہو چکی تھیں۔ مفتی منیب اور فواد چوہدری ریسلنگ رنگ میں آمنے سامنے کھڑے تھے۔ یہ دلچسپ پوسٹرز سب کی حس مزاح کو چھیڑ چکے تھے۔ ہر گروپ پر ایک سے ایک بڑھ کر لطیفہ چل رہا تھا۔
پھر میں سوشل میڈیا کو دیکھنے لگی۔ وہاں بھی مفتی منیب اور فواد چوہدری کے بیچ ہونے والے میچ کی دھوم تھی۔ ہنستے مسکراتے مزاحیہ میمز کی رونق لگی تھی۔ سوگواریت جا چکی تھی سب چاند دیکھنے میں لگ گئے پھر چاند کس نے دیکھا کس نے شہادت دی سائنس جیتی یا مفتی صاحب۔
دہی لگانا ہے یا سویاں بنانی ہیں جیسی مزاحیہ پوسٹس نے سوشل میڈیا پر عید کا سماں باندھ دیا۔ اسی شور میں عید کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک شام سے دوسری شام تک ہمارے جذبات نے کئی بار کروٹ لی اور دلچسپ بات یہ تھی کہ تقریبا سبھی اس دھارے میں ایک ساتھ بہہ رہے تھے۔
ہم بہت جذباتی قوم ہیں یہ جملہ ہم نے لاکھوں بار سنا ہوگا۔ جذبات جو انسان ہونے کی دلیل ہیں جذبات جو دوسروں کا دکھ اپنا سمجھنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ ہم جذباتی ہو کر کسی کو بھی اپنا مسیحا مان لیتے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 2019 میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن پاکستان میں بےحد مقبول ہو گئیں۔ نیوزی لینڈ میں مسجد اور چرچ پر ہونے والے حملے کے بعد جیسنڈا کالا دوپٹہ اوڑھے آنکھوں میں آنسو لیے مسلمانوں کا دکھ بانٹتی نظر آئیں اور ہم بےانتہا جذباتی ہو گئے۔ پاکستان کے عوام ان مناظر کو دیکھ کر ان کے مداح ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی کہتے رہے کہ ایسی ہوتی ہیں قومیں اور ایسے ہوتے ہیں لیڈر وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں جذبات کو ہرغلط صحیح بات کے لیے استعمال کرنے والوں نے اس قوم کے جذبات کا دورانیہ بڑا کم کر دیا ہے۔ ’ڈی فالٹ سیٹنگ‘ ہو گئی ہے کہ ہر دن جذبات کا ایک نیا بھنور اٹھتا ہے اور اگلے دن کسی نئی لہر میں دب جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ہمارے قومی جذبات تیزی سے ابھرنے اور بیٹھ جانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کوئی ٹھہراؤ نہیں۔ کوئی مقصد نہیں بس ہر آنے والے ایشو پر مصیبت ہر مسئلے پر جذباتی ہونا لازم ہے۔ ان جذبات کا اظہار کرنا واجب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بس ۔۔۔ اسی طرح وزیر اعظم جیسنڈا بھی کچھ عرصہ موضوع بحث رہیں اور پھر ہم اپنے معمول کے دھارے میں بہنے لگے۔ مجھے وزیراعظم جیسنڈا کا خیال پی آئی اے کریش کے بعد دیکھے جانے والے چاند اور منائی جانے والی عید کی وجہ سے آیا۔
پی آئی کا کریش قومی جذبات پر غم کا پہاڑ بن کر گرا۔ ہر کوئی صدماتی کیفیت میں تھا۔ کچھ دوستوں کے عزیز اور دوست اس فلائٹ میں تھے۔ سب جذباتی تھے صدمے کی کیفیت میں بھی ذمہ داروں کا تعین کرنے کا اہم ترین مطالبہ نہیں بھولے تھے۔ لیکن یہ جذبات صرف اس سائنسی پراسس کا نتیجہ ہیں جن کو عمل اور رد عمل کہا جاتا ہے۔
ان جذبات میں کوئی سمت نہیں ہے۔ ہمدردی اور رحم دلی انسان کے اعلی ترین اوصاف ہیں اور انہی خوبیوں کی وجہ سے انسان دنیا کو جنت بنا سکتا ہے۔ لیکن ہم جذباتی ہونے میں اتنا وقت اور توانائی صرف کر دیتے ہیں کہ عملی میدان میں جاتے جاتے تھک جاتے ہیں۔
دنیا میں کرونا سے پیدا ہونے والی صورت حال کو جتنا بھی خطرناک قرار دیا جائے یہ بات درست ہے کہ یہ حالات دنیا کی نسبت پاکستان میں ذرا مختلف ہیں۔ اس لیے پورا زور لگانے کے باوجود ذیادہ تر پاکستانی سنجیدگی سے خطرات کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں۔ کریش سے پہلے تک مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ عید کیسی ہو گی۔ شاپنگ والوں کی قطاریں دیکھ کر اندازہ تھا کہ رنگ و گل کی برسات ہو گی ہمیشہ کی طرح۔
پھر بدقسمت حادثہ ہو گیا۔ ہر آنکھ پرُنم تھی۔ میں نے سوچا کہ بس اب عید مختلف ہو گی سادگی اور سوز کی ترجمانی کرتے لوگ ٹی وی چینلز پر نظر آئیں گے اور سوشل میڈیا پر بھی لوگ غمزدہ خاندانوں کے ساتھ دکھ بانٹیں گے۔ آخر قومی سانحہ تھا۔ سو افراد سے جڑے خاندان جانے کتنے گھر صدمے سے نڈھال تھے۔ لیکن اس جذباتی قوم نے ٹی وی شوز پر خوب ہلا گلا کیا۔ ہنسی مذاق کی۔ کچھ پروگرام تو کئی روز پہلے سے ریکارڈڈ تھے لیکن نئے پروگرام بھی ہو سکتے تھے۔ سجی سنوری تصاویر ہنسی مذاق ۔۔ قہقے سب جو عید کی خوبصورتی ہے وہ سب تھا۔ بہرحال غموں کے اتنے بوجھ میں دب کے بھی ہماری عید ہو گئی۔ ہم بہادر اور جذباتی قوم ہیں بس ہمارے اندر اجتماعی حساسیت اور ہمدردی ذرا کم ہو رہی ہے مگر کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟؟