پچھلے اٹھارہ سال سے ہر چاند رات میں اپنے دوست دبیر حیدر کو یاد کرتا ہوں۔ عید کے دن اس کا جنازہ تھا۔ اور اب اس عید پر یہ سانحہ۔ وہاں لوگ چاند رات منا رہے ہیں اور ادھر پھر دوست دفن ہو رہے ہیں۔
چار دن ہو گئے ہیں، دماغ طرح طرح کے سنیریو بنا بنا کر دکھا رہا ہے کہ حادثے میں ہوا کیا ہو گا۔ لینڈنگ سے پہلے کپتان ایک فقرہ بولتا ہے۔ 'کیبن کریو ٹیک یور سیٹس فار لینڈنگ۔' بس یہ فضائی میزبانوں کے لیے چھٹی کا پروانہ ہوتا ہے۔ نوکری ختم۔ اب گھر جائیں گے۔ گیلی (کچن) بند کرو۔ سب کی سیٹ بیلٹس بندھواو اور اپنی جمپ سیٹ پر ڈیرہ جماو۔ ان سب نے بھی یہی کیا ہو گا۔
بچانے والی ذات بے شک اللہ ہی کی ہے مگر دو لوگ جو بچ گئے ہیں اس میں سیٹ بیلٹ کا بہت بڑا کردار ہے۔ بچنے والے مسافر زبیر نے کہا کہ میں نے سیٹ بیلٹ کھولی اور جان بچانے کے لیئے دس یا بارہ فٹ سے چھلانگ لگائی۔ اگر سیٹ بیلٹ نہ لگائی ہوتی، تو خدانخواستہ وہ کسی دیوار پر یا جہاز کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے پر بھی گر سکتا تھا جو زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا۔ دوران پرواز ٹربیولنس کی ایک قسم کو کیٹ بھی کہا جاتا ہے یعنی (CAT - Clear Air Turbulence).
یہ راڈار پر نہیں آتی۔ فضا میں جگہ جگہ موجود خلا کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ جہاز جب ان میں سے گزرتا ہے تو ایک زبردست جھٹکا لگتا ہے۔ اس لیے بار بار یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ کے رکھیں۔
'مے ڈے، مے ڈے' وہ جملہ ہے جو لوگ دعا کرتے ہیں کہ ساری زندگی نہ سننا پڑے۔ دو تین بار ایسا اتفاق ہوا کہ ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔ میں وین میں سوار تھا، ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ایک دم بریک لگانی پڑ گئی۔ اچانک افتاد پڑنے سے اچھے بھلے مردوں کے نرخرے سے ایسی رندھی ہوئی چیخیں میں نے سنی ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ لیکن لمحہ بہ لمحہ اپنی جانب بڑھتی ہوئی موت کو دیکھ کر اس قدر پر سکون کس طرح رہا جاسکتا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہی وہ ٹریننگ اور مضبوط اعصاب ہوتے ہیں جن کی بنا پر کسی بھی مشکل صورت حال سے نکلا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سجاد صاحب اس وقت مکمل کنٹرول میں تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں کوئی ایوی ایشن کا ایکسپرٹ تو نہیں لیکن مجھے اتنا پتہ ہے کہ جہاں رن وے ہو وہاں آس پاس عمارتیں نہیں ہونی چاہیئں، پرندے بھی نہیں ہونے چاہیئں۔ دونوں انجن فیل ہو جانا کوئی روز روز کی بات نہیں۔ میرے خیال سے جہاز زیادہ بلندی پر ہوتا تو گلائڈ بھی کر سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے زمین سے اتنا قریب ہونے کی وجہ سے گریویٹیشنل پل نے اپنا کام دکھا دیا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انگریزی کے تین الفاظ ڈاؤن ٹو ارتھ، پروفیشنل اور تھارو جنٹلمین کا مجموعہ کپتان سجاد گل تھے۔ ان کے ساتھ جو آخری پرواز تھی میری، اس پر میں کیبن کو لیڈ کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر ان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ لیڈ کیبن کریو میں ہوں کیونکہ میں اپنی عمر سے چھوٹا لگتا ہوں۔ بہت دوستانہ رویہ رکھتے تھے۔
جن فرید بھائی (سٹیورڈ) کی اس حادثے میں قضا لکھی تھی ان سے پہلا تعارف بیجنگ فلائٹ پر ہوا تھا۔ میں ان کے ہی زون میں کام کر رہا تھا۔ اگلے دن میں کچھ لکھنے میں مصروف تھا تو ان کا فون آیا۔ 'کے جے (خاور جمال) برادر، کی حال جے۔ فارغ او تے آو گپ شپ لائیے۔' بس اس کے بعد تقریباً پانچ دن ان کے ساتھ ہی گزرے۔ بازاروں میں گھومتے رہے۔ چینیوں سے پنجابی میں باتیں کرتے رہے۔ فرید بھائی بہت سے لوگوں کے بڑے بڑے راز جانتے تھے لیکن کبھی نہیں بتاتے اور نہ ہی اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتے۔ ان کا ایک مخصوص انداز تھا بات کرنے کا۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سکڑ کر بیٹھ جاتے اور پھر ایک ہاتھ سے منہ ڈھانپ کر بات کرتے۔ میں اور میرا دوست لئیق اکثر اکٹھے فلائٹس کرتے تھے۔ جب فرید بھائی ساتھ ہوتے تو کہتے 'تسی دوویں رل گئے جے ہن مینوں نال رکھنا کدرے چھڈ نہ جائیو۔'
انعم (ائیر ہوسٹس) کے والد بھی پہلے پی آئی اے میں ہی تھے۔ انعم نے ان سے کہا تھا جلدی آ جاوں گی افطاری ساتھ کریں گے۔ کیا معلوم تھا اس کی افطاری کہیں اور کرنا لکھا ہے۔ ورد کرتے رہنا قیوم بھائی کی نس نس میں شامل تھا۔ آخری لمحوں میں یقیناً کوئی تسبیح مکمل کی ہو گی جمپ سیٹ پر بیٹھ کر۔ عرفان تو اپنے بہاولپور کا تھا۔ پوری کوشش ہوتی کہ جب بھی ملے میں اپنی ٹوٹی پھوٹی سرائیکی میں اس سے بات کروں۔ میکوں کیا پتہ ہئ ہن کڈھئیں نہ ملسی۔ اسما کے ساتھ بھی بہت فلائٹس کیں۔
اپنے کام سے کام رکھنے والی نہایت سمجھدار لڑکی۔ پتہ چلے کہ کوئی ضرورت مند ہے تو مدد کرنے کمیں دوسری مرتبہ نہیں سوچتی تھی۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ اس پاس کے نادار بچوں کو پڑھاتی بھی تھی اور غالباً کسی بچے کا ماہانہ خرچ بھی اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ آمنہ کا ہر سال ساتھ ہی ریفریشر کورس ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بہت کم فلائٹس پر ساتھ رہا۔
فرید بھائی کا مخصوص انداز نہ میں بھول سکوں گا اور نہ ہی کوئی بھی ایسا بندہ جو ان کو جانتا ہے۔ ان سے لوگوں کے اختلافات بھی تھے کیونکہ وہ سچ بہت بولتے تھے اور بعض اوقات لگی لپٹی بغیر۔ ان کے ساتھ بہت وقت گزرا۔ جب پہلے خبروں میں سنا کہ زخمی ہیں تو امید بندھ گئی لیکن کچھ دیر بعد ہی ان کو ملبے سے نکالا گیا تو سب امیدیں دم توڑ گئیں۔ جیسے ہی ان کا تابوت اٹھتے ہوئے دیکھا تو میرے ذہن میں ان کی آواز گونج اٹھی، 'اوئے کدھر چھڈن چلے او مینوں۔'