پچھلے ہفتے تک میں ایک صحافی کے طور پر کرونا سے متعلق صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ اور اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں میں خود اس وائرس میں مبتلا ہوں اور ان اعداد و شمار کا حصہ بن گئی ہوں جو کل تک میرے لیے صرف خبر تھے۔
مجھے جب شبہ ہوا کہ مجھے کرونا کا ٹیسٹ کرانا چاہیے تو میری فیملی اور احباب کی رائے ہر طرح کے شکوک و شبہات، وہم اور سازشی مفروضے لے کر آ گئی۔ ان آرا نے میرے ذہن میں کئی سوالوں کو جنم دیا۔ اسی طرح جب میرا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا تو اس خبر پر میرے عزیز و اقارب کے مشورے اور ردعمل بھی مختلف تھا۔ ساری صورت حال کرونا سے متعلق کم علمی اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ اس تجربے کے تحت اب میں ایک نئے انداز میں ان تمام اقدامات کا تجزیہ کر رہی ہوں جو کرونا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اور سماجی سطح پر کیے گئے۔
پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد اور اموات کی شرح میں اضافہ بتا رہا ہے کہ ہم اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس کتنے طبی آلات ہیں کتنے ماسک ہیں، یہ سب بہت بعد کی چیزیں ہیں ہمارا بنیادی مسئلہ اس وبا کی حقیقت سے مسلسل انکار ہے۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے بیانات ایک دوسرے سے متصادم رہے۔ قومی سطح پر اس وبا کے خطرات کے حوالے سے مربوط سوچ اور حکمت عملی کا فقدان رہا۔ اس سارے کنفیوژن کا نتیجہ غلط اطلاعات اور سازشی نظریات کے انبار کی شکل میں نکل رہا ہے۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میرا خاندان مجموعی طور پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے میں کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے گاؤں میں مقیم تھی اور ایک اہم میٹنگ کے لیے ایک دن اسلام آباد آئی۔ میرے خیال میں اس میٹنگ میں ہی میں کرونا وائرس کا شکار ہوئی کیونکہ وہاں پر موجود چند افراد میں بعد میں کرونا کی تصدیق ہوئی۔
اس میٹنگ میں چند لوگ تھے جو سماجی فاصلے کا خیال کر کے بیٹھے تھے۔ کچھ لوگوں نے ماسک پہن رکھے تھے اور باقی ماسک کے بغیر تھے۔ اس میٹنگ کے بعد جب میں واپس اپنے گاؤں گئی تو میری طبیعت ناساز تھی اور میں نے اپنے والدین اور باقی گھر والوں سے درخواست کی کہ آپ سب مجھ سے دور رہیں۔ میں نے خود کو کمرے تک محدود کر لیا۔
میرے گھر میں سب کی رائے یہ تھی کہ میں وہم نہ کروں یہ کرونا نہیں ہے مگر بہر حال وہ میرے سماجی علیحدگی کے فیصلے پر میرا ساتھ دے رہے تھے۔ سب کمرے کے باہر سے ہی میرا حال احوال پوچھ جاتے تھے۔ میں نے چار دن کی بیماری کے بعد ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا تو گھر کے آدھے لوگ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں احتیاط ویسے بھی کر رہی ہوں اس لیے ٹیسٹ کرانے کا خیال بےکار ہے اور مجھے بس سماجی علیحدگی پر اکتفا کرنا چاہیے۔
میں جذباتی طور پر کافی کشمکش میں گرفتار تھی۔ جب طبیعت نڈھال ہوتی تو میں سوچنے لگتی کہ مجھے کرونا ہے اور جب میں بہتر محسوس کرتی تو پھر میں بھی یہ سوچنے لگتی کہ یہ وہم ہے۔ لیکن جس چیز سے میں زیادہ تھک رہی تھی وہ سماجی دوری کا بوجھ تھا۔ میں اپنے بھتیجے اور بھتیجوں کو گود میں نہیں لے رہی تھی۔ ان سب کو بار بار یاد کرانا پڑ رہا تھا کہ پھپھو بیمار ہیں اور دور رہیں۔ اس کشمکش سے نکلنے کا واحد طریقہ ٹیسٹ تھا۔
اس لیے فیصلہ ہو گیا کہ میں کرونا کا ٹیسٹ کرانے جا رہی ہوں۔ تو جناب پھر میں نے وہ وہ سازش کا پلاٹ سنا کہ بس میں دنگ رہ گئی۔ آپ بھی سنیں اور شکریے کا موقع دیں:
نمبر ایک بے شک ٹیسٹ منفی آئے تو ہسپتال والے مثبت کی رپورٹ دیں گے۔ کیونکہ انہیں ہر مریض کے پیسے مل رہے ہیں۔
ٹیسٹ تو مثبت ہی آئے گا حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ مریض ہوں تا کہ انہیں بیرونی امداد ملے۔۔
پھر ایک صاحب جو ایک ذمہ دار ریاستی ادارے میں نوکری کرتے ہیں انہوں نے میری ماں سے کہا کہ ٹیسٹ کرتے ہوتے ایسا کچھ جسم میں بھیج رہے ہیں جس سے انسان کے پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
ایک اور ایسے ہی معزز شخص نے بتایا کہ یہ سب سازش ہے اور پاکستان کی معیشت کو تباہی کرنے کے لیے کرونا کا ڈراما رچایا جا رہا ہے۔
خیر یہ سب کچھ سننے کے باوجود میرا ٹیسٹ ہو چکا تھا اور میں واپس اسلام آباد آ کر بھی میں مکمل علیحدگی میں تھی۔ جیسے ہی رپورٹ مثبت آئی تو میں نے سوشل میڈیا پر اس کا اعلان کیا۔ میرے خاندان اور احباب میں سے کئی لوگوں کو میرا یہ اقدام ایک آنکھ نہ بھایا۔ میرے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو بس یہ تھا کہ میں ایک چھوٹی موٹی پبلک فگر ہوں اور ایک صحافی اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے مجھ پر کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کو آگاہی دینے میں اپنا کردار کروں، اور لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کرونا ایک حقیقت ہے۔
خیر اب اعلان ہو چکا تھا کہ مجھے کرونا ہے۔ اس کے بعد مجھے جو کالز آئیں، ان میں دوا اور نیک خواہشات کے ساتھ کچھ لوگوں کا یہ مشورہ بھی تھا کہ ٹیسٹ ایک دو جگہوں سے کروا لوں اور صرف ایک ادارے پر اعتبار نہ کروں، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے مختصراً سب کو اپنی طبیعت کی خرابی کا بتایا۔ اب میں قرنطینہ میں بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ سارا میڈیا کرونا سے متاثرین اور ہلاکتوں کی کہانیاں روزوشب سنا رہا ہے پھر بھی اتنی غلط معلومات پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟
ہماری ریاست نے شروع میں وبا کو ایسے ہینڈل کیا جیسے دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے خبریں بھی ایسے ہی چلائیں۔ علاقہ سیل ہو گیا مشتبہ مریضوں کو مفرور مجرموں کی طرح اٹھایا گیا۔ لوگ قرنطینہ سے ایسے بھاگے جیسے جیل سے بھاگتے ہیں۔ اس وبا کے لیے قوم کو طبی معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جذباتی طور پر بھی تیار کرنے کی ضرورت تھی۔ لوگوں کو ان لوگوں کی کہانیاں زیادہ سنانے کی ضرورت تھی جو کرونا سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
قومی سطح پر وبا سے لڑنے کے لیے ایک ایسے ماحول کی ضرورت تھی جہاں سب کو وبا سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ادراک کرنے میں مدد ملے لیکن حقیقت میں اس کے الٹ ہوا۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس نے کنفیوژن اور بے یقینی کی صورتحال کو بڑھایا۔
حکومتوں کے مابین لاک ڈاؤن اور نرم لاک ڈاؤن کا جھگڑا سا تھ ساتھ چلتا رہا۔ غربت سے مرنا ہے یا کرونا سے۔ کبھی ایک موقف کبھی دوسرا۔ ایک حکومتی ترجمان کا بیان اور دوسرے کا اور۔ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کی چپقلش بھی مسلسل جاری تھی ایسے میں عدالت عظمیٰ کی مداخلت اور شاپنگ مالز کھولنے کے فیصلے نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ساری صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے وبا کے خطرات کو ذیادہ سنجیدہ نہیں سمجھا۔ کچھ نہیں ہوتا، اور کرونا سے زیادہ لوگ ہارٹ اٹیک سے مرتے ہیں۔ اس بیانیے نے لوگوں کو اور شہہ دی۔ جو تھوڑی بہت احتیاط کی کوشش کر رہے تھے وہ بھی بور ہو گئے۔
اب چند دنوں سے ہزاروں کی تعداد میں کرونا کے نئے کیس سامنے آ رہے ہیں اور شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غلط معلومات کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مربوط انداز میں آگاہی مہم چلائی جائے۔ اصل حقائق شفافیت سے قوم کے سامنے رکھے جائیں۔ جذباتی اور نفسیاتی حوالوں سے لوگوں کو تیار کیا جائے۔ مریضوں کو مجرموں کی طرح ہینڈل نہ کیا جائے۔ لوگوں کا اعتماد بحال کیا جائے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ وہ تمام معاملات جہاں حکومتوں کے مابین یا اداروں کے مابین اختلافات ہیں ان کے حل تلاش کیے جائیں تا کہ مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ممکن ہو سکے۔
ہرڈ امیونٹی (اجتماعی قوتِ مدافعت) کے چرچے کرنے والے نقصانات کا اندازہ لگانے میں جلدبازی سے کام لے رہے ہیں۔ خاندانوں کے خاندان اس وبا سے تباہی کی طرف جا سکتے ہیں۔ ان ممکنہ نقصانات کا سنجیدگی سے ادراک ضروری ہے، تاکہ نہ صرف لوگوں کو اس وبا سے محفوظ رکھا جا سکے بلکہ نفسیاتی محاذوں پر بھی کامیابی سے لڑا جا سکے۔ لوگوں کو احتیاط کرنے کے لیے ڈنڈے کے زور پر نہیں آگاہی سے تیار کیا جائے۔
آخر میں پڑھنے والوں سے بس یہ کہوں گی کہ قطار بنانا سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہاتھ دھونا اپنی زندگی کی قدر کرنا آپ کو بڑی پریشانی سے بچا سکتا ہے۔ اس موقع سے ہم سماجی تربیت کے بڑے ایجنڈے پر کام کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم یعنی ہمارا سماج ریاست اور حکومت ایسا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو۔