وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے شوگر انکوائری کمیشن کی فرانزک رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں مختلف اداروں کے ذریعے شوگر انڈسٹری میں بدعنوانی کی تحقیقات کرانے کے احکامات کی منظوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں شوگر انڈسٹری کو دی جانے والی سبسڈیز کی بنیاد ہی غلط تھی۔
انہوں نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سبسڈی دینا جرم نہیں لیکن گذشتہ پانچ برسوں کے دوران 29 ارب روپے کی سبسڈی کاجائزہ لینے کے دوران ایک بنیادی خلا نظر آیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چینی برآمد کرنے کے لیے جو شرط اہم تھی، شوگر ملوں نے اس کی خلاف ورزی کی، جس وجہ سے 2014 سے 2019 کی سبسڈی کا جائزہ لیا گیا۔ 'ان سب سبسڈیز میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ کوئی قانونی فیصلہ نہیں تھا اور جس بنیاد پر سبسڈی دی گئی تھی وہ بنیاد ہی غلط تھی۔'
معاون خصوصی نے مزید کہا کہ 'ہم اپنے دور میں دی گئی چار ارب روپے سبسڈی کی بھی انکوائری کر رہے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہزاد اکبر نے کہا کہ سبسڈی سے متعلق کارروائی قومی احتساب بیورو (نیب) نے کرنی ہے جبکہ دوسرا معاملہ ریکوری سے متعلق ہے جو وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) دیکھے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے شوگر کمیشن سے متعلق جن معاملات کی منظوری دی تھی جو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے انہیں موصول ہوچکی ہے، نیز جو نکات تجویز کیے گئے وہ بھی منظور کیے گئے ۔
شہزاد اکبر کے مطابق شوگر کارٹل کے خلاف کارروائی کے نکات میں فوجداری مقدمات درج کیے جانا اور پیسوں کی وصولی کے لیے ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے معاملات شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو کارپوریٹ فراڈ کے معاملات بھیجے ہیں، برآمد کی مد میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں وہ بھی شامل ہیں اور اس کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور وقت بھی متعین کردیا گیا ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ ایس ای سی پی، ایف بھی آر اور مسابقی کمیشن کو ریگولیٹ کرنا ہوگا، جبکہ چینی کی اصل قیمت کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ چینی عام لوگوں کو 30 سے 40 روپے فی کلو مہنگی مل رہی ہے، ہم شوگر کارٹل کے خلاف تمام ثبوت عدالت میں پیش کریں گے۔