پاکستان کی ون ڈے ٹیم اب کی بار اپنے سب سے مضبوط گڑھ میں بھی بے بس دکھائی دی اور آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز کا آغاز شکست سے کیا۔
متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلی جانے والی پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے ابتدائی دونوں ہی میچوں میں پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے ہار کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ آسٹریلیا کی جانب سے دونوں ہی میچوں میں کپتان آئرون فنچ نے سینچریاں سکور کر کے تن تنہا ہی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کروایا۔
آسٹریلیا کی جانب سے ایسی کارکردگی کی امید تو تھی ہی کیونکہ وہ یہاں آنے سے قبل بھارت کو بھارت میں ہی ون ڈے سیریز ہرا کر آئی ہے۔
لیکن گذشتہ کئی سالوں ان میدانوں پر غیرملکی ٹیموں کی میزبانی کرنے والی پاکستانی ٹیم اور ساتھ ساتھ انہی میدانوں پر پچھلے چار سالوں سے پی ایس ایل کھیلنے والے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی یہ کارکردگی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اور تو اور پاکستان سپر لیگ کے چوتھے سیزن کا اختتام تو ابھی چند دن قبل ہی ہوا ہے اور سلیکشن کمیٹی نے پی ایس ایل کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے ہی سکواڈ کا انتخاب کیا۔
اگر ٹیم کے انتخاب کے لیے 20 اوورز کی کرکٹ لیگ ہی پیمانہ تھی تو پھر پاکستان نے اس ون ڈے کے لیے ان کھلاڑیوں کو کیوں میدان میں اتارا جن میں سے سوائے امام الحق اور فہیم اشرف کے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے پی ایس ایل میں کوئی قابل ذکر انفرادی کارکردگی دکھائی ہو۔
خود شعیب ملک بطور کپتان ناکام رہے اور ان کی ملتان سلطانز پی ایس ایل کی سب سے ناکام ٹیم رہی تھی۔ محمد عباس، محمد عامر، یاسر شاہ اور عماد وسیم وہ بولر ہیں جو پی ایس ایل میں بالکل ناکام رہے تھے اور ان کی ٹیمیں بھی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آسٹریلیا کے خلاف دونوں ہی میچوں میں پاکستانی بلے باز باآسانی تین سو کا ہندسہ پار کر سکتے تھے لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ 280 اور 284 رنز کا دفاع ناممکن تھا۔
مگر پاکستان ٹیم جب فیلڈنگ کے لیے میدان میں اتری تو ان کے چہروں ہر تھکان اور ’باڈی لینگوئج‘ مثبت دکھائی نہیں دی۔
پی ایس ایل کے کامیاب بولرز کو سکواڈ میں تو شامل کیا گیا لیکن شاید انھیں سیریز کے پہلے ہی میچ میں اس لیے نہیں کھلایا گیا کہ کہیں وہ دباؤ میں نہ آجائیں۔ لیکن اب اگر انہیں ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا ان پر ابتدائی ہار کے بعد خود کو ثابت کرنے اور ٹیم کو سیریز کی شکست سے بچانے کا دوہرا دباؤ نہیں ہوگا؟
ورلڈ کپ سے قبل کیا یہی وہ موقع نہیں جہاں پاکستان نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے، کوئی موثر کامبینیشن بنانے کے ساتھ ساتھ ’اٹیکنگ‘ کرکٹ کھیل سکتا ہے۔
ایسا تب ہی ممکن تھا اگر پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی جتوانے والے اور پاکستان سپر لیگ کے سب سے کامیاب کپتان سرفراز احمد جنوبی افریقہ کہ خلاف ون ڈے سریز میں ’وہ الفاظ‘ ادا کرنے سے خود کو روک لیتے۔