بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
سردار اختر مینگل اس سے قبل کئی مرتبہ حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دیتے رہے ہیں تاہم آج انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں وفاقی حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں وفاقی حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے ہر موقع پر وفاقی حکومت کا ساتھ دیا لیکن بدلے میں انہیں کچھ نہیں ملا۔
’ہم نے سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزیراعظم اور صدر کے انتخاب کے موقع پر حکومت کا ساتھ دیا۔‘
گذشتہ مالی سال کے بجٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود گذشتہ بجٹ میں بھی حکومت کا ساتھ دیا، مگر وفاقی حکومت نے ہمیں کیا دیا؟‘
وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا جو شخص گاڑی پر لگا لے اس کی تلاشی تک نہیں لی جاتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف جھنڈا لگانے سے کوئی محب وطن نہیں بن جاتا۔‘
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے اختر مینگل نے کہا کہ ’حکمران جماعت نے ہمارے ساتھ لاپتہ افراد اور بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے معاہدہ کیا، کیا ان معاہدوں پر عمل کیا گیا؟ آج لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے اور اس معاہدے پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور یار محمد رند کے دستخط موجود ہیں۔‘
آئندہ مالی سال کے بجٹ اور خالی خزانہ وراثت میں ملنے کے بیانات پر اختر مینگل نے کہا کہ ’ہم نے اپنے ایوانوں کو ہائیڈ پارک کارنر بنا دیا ہے جہاں تجاویز تک نہیں لی جاتیں، اگر تجاویز کو حل نہیں کرسکتے تو کم ازکم ان کو نوٹ تو کرلیں، اگر نوٹ کرنے کے لیے کاغذ اور پینسل نہیں تو ہم چندہ دینے کے لیے تیار ہیں، یہ مت کہیں کہ ہمیں خالی خزانہ ورثہ میں ملا ہے، ایسے تو بات قائداعظم تک پہنچ جائے گی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا: ’کیا ہم اگلے بجٹ کی ذمہ داری ٹڈی دل اور کرونا پر ڈال دیں گے۔‘
ماضی میں بی این پی کی دھمکیاں
20 ستمبر 2018: بی این پی کے جنرل سیکرٹری سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے حکمران جماعت سے راستے الگ کرنے کی دھمکی اس وقت دی جب وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر جہانزیب نے کہا: ’اگر حکومت اپنے اس منصوبہ پر عمل درآمد کرتی ہے تو بی این پی کا حکومت کے ساتھ چلنا مشکل ہوگا۔‘
9 اکتوبر 2018: سردار اختر مینگل نے خضدار میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی کی حکومت گوادر اور ریکوڈیک کے معاملات پر ہمیں بدستور نظر انداز کرتی رہے گی تو ہم وفاقی سے اپنی حمایت واپس لے سکتے ہیں۔‘
14 جنوری 2019: سینیٹ کے ضمنی انتخابات کے موقع پر بی این پی نے یہ دھمکی ایک بار پھر دہرائی کہ اگر پی ٹی آئی ان کے امیدوار کی حمایت نہیں کرے گی تو وہ حکومت کو خیرباد کہے گی۔ پی ٹی آئی اس دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہوئی اور بی این پی کے امیدوار غلام نبی مری کو بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ کے ہاتھوں 23 کے مقابلے میں 38 ووٹوں سے شکست ہوئی۔ اس نتیجے کے فوری بعد بی این پی کے سینیئر رہنما صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے ہمارے امیدوار کو ووٹ نہ دے کر ہمیں مایوس کیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت دو دن کے اندر اندر ایک اجلاس میں وفاقی حکومت سے الگ ہونے پر غور کرے گی۔
17 جون 2019: سردار اختر مینگل نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ کہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ’ہم نے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں مانگی جس سے میری ذات یا جماعت کو فائدہ ہو۔ ہم نے صرف صوبہ (بلوچستان) کے لوگوں کے لیے انصاف مانگا ہے۔‘ اختر مینگل نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ پی ٹی آئی کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ ’یہ بلیک میلنگ نہیں ہے۔ اگر ہم پی ٹی آئی سے وزارت یا اعلیٰ حکومتی عہدہ طلب کرتے تو اسے بلیک میل کہا جاتا۔ ہم تو صرف حقوق کی بات کرتے ہیں۔‘