دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد جب بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) نے مرکز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی حکومت کی حمایت اور بلوچستان میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تو بی این پی بیک وقت اپنی کئی خواہشات کی تکمیل چاہ رہی تھی۔
پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کی خواہش تھی کہ وہ اسلام آباد میں اپنے اور اپنی جماعت کےحوالے سے ہر قسم کی غلط فہمیوں کا خاتمہ کریں اور اسلام آباد کے مقتدر حلقوں کو باور کرائیں کہ وہ’برے قوم پرستوں‘ کی طرح ’ملک دشمن‘ نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے آئین پر مکمل یقین رکھنے والے اعتدال پسند قوم پرست ہیں جو آئینی دائرے میں رہ کر بلوچستان کے حقوق کی بات کریں گے۔ تاہم صوبائی سطح اپنا قوم پرستانہ لب ولہجہ برقرار رکھتے ہوئے مینگل صاحب اپوزیشن میں بیٹھ گئے۔
جب بی این پی نے پی ٹی آئی کی حمایت کا فیصلہ کیا تو وہ غالباً یہ سوچ رہی تھی کہ شاید وہ وزیر اعظم عمران خان سے باآسانی اپنے چھ نکات منوالے گی اور بلوچستان میں اقتدار میں آنے والی نسبتاً نئی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خان صاحب کو جلد ہی اس بات پر قائل کرسکے گی کہ صوبہ میں حکومت تبدیل کر کے اسے بی این پی کے حوالے کیا جائے۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انتخابات کے بعد خان صاحب بظاہر بدل گئے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے وعدوں سے مکر گئے اور بلوچستان ان کی ترجحات میں شامل نہیں رہا۔ مینگل صاحب سیاسی حوالے سے کمزور ہوتے گئے۔ اختر مینگل کے چھ نکات کا علم صرف ان ہی کی جماعت کے کارکنان کو تو تھا لیکن باقی ملک میں اب بھی بیشتر پڑھے لکھے لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ یہ نکات کیا ہیں اور پی ٹی آئی نے ان سے کیا وعدہ کیا تھا۔
اب اعلاعات ہیں کہ بی این پی ’سنجیدگی‘ سے مرکز ی حکومت سے اپنی حمایت سے دستبردار ہونے کا سوچ رہی ہے۔
جماعت کے ایک سینیئر رہنما نے بڑی معصومیت سے گلہ کیا ہے کہ ’بہت افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بی این پی کی قدر نہیں کر رہے۔‘ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’وفاق نے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کر کے راستہ جدا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘
بی این پی پی ٹی آئی کے ساتھ ایک ایسی دلدل میں پھنس گئی ہے جہاں سے اسے واپسی کا کوئی آسان راستہ نظر نہیں آرہا۔ پی ٹی آئی کی حمایت سے دستبردار ہو کر وہ اپنے لیے نہ صرف حکمران جماعت سے دوری پیدا کرے گی بلکہ ایک طرح سے جام کمال کے ہاتھ مزید مضبوط کرے گی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بی این پی نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں یہ دھمکیاں اتنی بار دہرائی گئی ہیں کہ نہ پی ٹی آئی والے ان سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اب مقامی اخبارات انہیں سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
آیئے ان دھمکیوں کی مختصر تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔
20 ستمبر 2018 کو پی ٹی آئی کی حکومت کا اتحادی بننے کے ایک ماہ بعد بی این پی کے جنرل سیکرٹری سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے حکمران جماعت سے راستے الگ کرنے کی دھمکی اس وقت دی جب وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو پاکستانی شہریت دینےکا اعلان کیا۔ ڈاکٹر جہانزیب نے کہا: ’اگر حکومت اپنے اس منصوبہ پر عمل درآمد کرتی ہے تو بی این پی کا حکومت کے ساتھ چلنا مشکل ہوگا۔‘
9 اکتوبر 2018 کو سردار اختر مینگل نے خضدار میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے پی ٹی آئی کی حمایت تو کی لیکن اس کے عوض کوئی وزارت نہیں لی کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل حل کرے لیکن انہوں نے کہا: ’اگر پی ٹی آئی کی حکومت گوادر اور ریکوڈیک کے معاملات پر ہمیں بدستور نظر انداز کرتی رہے گی تو ہم وفاقی سے اپنی حمایت واپس لے سکتے ہیں۔‘
14 جنوری 2019 کو سینٹ کے ضمنی انتخابات کے موقع پر بی این پی نے یہ دھمکی ایک بار پھر دہرائی کہ اگر پی ٹی آئی ان کے امیدوار کی حمایت نہیں کرے گی تو وہ حکومت کو خیرباد کہے گی۔ پی ٹی آئی اس دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہوئی اور بی این پی کے امیدوار غلام نبی مری کو بلوچستان عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ کے ہاتھوں 23 کے مقابلے 38 ووٹوں سے شکست ہوئی۔ اس نتیجے کے فوری بعد بی این پی کے سینیئر رہنما صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے ہمارے امیدوار کو ووٹ نہ دے کر ہمیں مایوس کیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت دو دن کے اندر اندر ایک اجلاس میں وفاقی حکومت سے الگ ہونے پر غور کرے گی۔ دو دن بعد بی این پی نے باقاعدہ ایک مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دی جس کو پی ٹی آئی کو بی این پی کے خدشات سے آگاہ کرنا تھا۔
17 جون 2019 کو سردار اختر مینگل نے ٹوئٹر پر کہا کہ کہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں مانگی جس سے میری ذات یا جماعت کو فائدہ ہو۔ ہم نے صرف صوبہ ( بلوچستان) کے لوگوں کے لیے انصاف مانگا ہے۔‘ مینگل صاحب نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ پی ٹی آئی کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’یہ بلیک میل نہیں ہے۔ اگر ہم پی ٹی آئی سے وزارت یا اعلیٰ حکومتی عہدہ طلب کرتے تو اسے بلیک میل کہا جاتا۔ ہم تو صرف حقوق کی بات کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
13 اکتوبر 2019 کو ڈاکٹر جہانزیب نے قلات میں کہا کہ اگر بی این پی حکومت کو چھوڑ کر حزب اختلاف کا ساتھ دیتی ہے تو حق بجانب ہوگی کیوں کہ بقول ان کے پی ٹی آئی نے لاپتہ افراد کے معاملہ میں اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور نہ ہی وفاقی ملازمتوں پر بلوچستان کے چھ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کیا ہے۔ بی این پی نے حکومت چھوڑنے کی یہ دھمکی اس وقت دی جب مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی سرکار کا تختہ گرانے کی نیت سے اسلام آباد کی جانب ’آزادی مارچ‘ کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
5 دسمبر 2019 کو اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں آواران میں چار خواتین کی گرفتاری کے معاملے پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دہرائی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پی ٹی آئی کو یاد دلایا کہ ’ہم نے پہلے بھی کئی حکومتوں سے استعفیٰ دیا اب بھی حکومت سے الگ ہوسکتے ہیں۔‘ ایک روز بعد انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو بتایا کہ موجودہ حکومت کو جتنی رعایت دینی تھی وہ دے چکے ہیں اور اب پی ٹی آئی کے لیے grace periodختم ہوچکا ہے۔
3 فروری 2020 کو ’بلوچستان ایکسپریس‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ ان کی جماعت اندورنی طور پر خود اپنے سینیئر رہنماؤں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کریں کیونکہ ’عمران خان اور ان کی ٹیم نے بلوچستان کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ اٹھارہ ماہ میں انہوں نے ہمارا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہمارے کارکن اور بلوچستان کے لوگ ہم سے مایوس ہیں کہ ہم اس کے باوجود بھی پی ٹی آئی کی حمایت کرتے آرہے ہیں۔‘
ان دو سالوں میں بی این پی محض دھمکی دینے والی پارٹی بن گئی ہے۔ ان دھمکیوں سے پی ٹی آئی کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا البتہ خود بی این پی کی ساکھ پر بڑا اثر پڑا ہے۔ یکے بعد دیگرے دھمکیوں کی وجہ سے بی این پی نے پی ٹی آئی کی سامنے اپنی شناخت ایک ایسی غیرمستقل اور جذباتی جماعت کی بنا دی ہے جو بات بات پہ ناراض ہوتی اور علیحدگی کی دھمکیاں دیتی ہے۔ خود بی این پی اپنے کارکناں کے لیے ایک ایسی جماعت بن چکی ہے جو دو سالوں میں بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ کیا عوام کی خدمت حکومت میں رہ کر بہتر طریقے سے کی جاسکتی ہے یا اپوزیشن میں۔