صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اراکین پارلیمنٹ کو قومی مفا مقدم رکھتے ہوئے ذاتی و سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کے شدید احتجاج کے دوران صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ’آیئے اس پارلیمانی سال کا بہترین استعمال کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایوان بہتر طرز حکمرانی، سیاسی اور معاشی استحکام کے فروغ کے لیے کام کرے۔ ہمیں پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے عزم کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔‘
صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’ملک میں گڈ گونننس اور سیاسی استحکام کو فروغ دینا ہو گا۔ جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔ عوام نے اپنی امیدیں پارلیمنٹ کے ساتھ وابستہ کر رکھی ہیں. عوامی خدمت کے شعبے پر بھرپور توجہ دینی ہو گی۔ عوامی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔‘
ملکی معیشت کو مستحکم قرار دیتے ہوئے انہوں نے ملک کو معاشی ترقی کے مثبت راستے پر ڈالنے پر حکومت کی کوششوں کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ ’براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ سٹاک مارکیٹ بھی تاریخی بلند سطح پر پہنچ گئی۔‘
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اعزاز کی بات ہے۔ یہ لمحہ جمہوری سفر کے تسلسل کا عکاس ہے۔
شرح سود میں کمی اور زرمبادلہ میں ریکارڈ اضافے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دیگر معاشی اشاریوں میں بھی بہتری آئی، لیکن ٹیکسوں کے نظام میں مزید بہتری لانا ہو گی، جب کہ عوامی بہبود کے منصوبوں پر بھی توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔
’ملک میں سماجی انصاف کے فروغ کے علاوہ یکجہتی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ یکساں ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔
صدر مملکت نے بنیادی ڈھانچے، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اور پاکستان کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے مزید محنت کرنا ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ملکی آبادی کا ڈھانچہ بدل چکا اور انتظامی مشینری میں تزویراتی سوچ کے فقدان اور آبادی میں اضافے نے حکمرانی کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان کو اپنی ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
’بچوں میں غذایت میں کمی اور پولیو میں اضافے کے تشویشناک واقعات میں کمی لانا ہو گی۔ مضبوط اور مؤثر ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر، روڈ نیٹ ورکس اورجدید ریلوے کی ضرورت ہے۔
’گلگت بلتستان اور بلوچستان روابط اور ترقی کے حوالے سے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں، جب کہ گلگت بلتستان اور بلوچستان کی ترقی ملکی معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔‘
صدر مملکت آصف علی زرداری نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مزید وسعت لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ایوان بہترطرز حکمرانی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کے فروغ پر توجہ مرکوز کرے۔’یہ بہت سے نئے عالمی چیلنجز کی صدی ہو گی اور ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی صوبہ، ضلع اور گاؤں پیچھے نہ رہے۔ انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اورمعاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔‘
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی برآمدات میں تنوع لانا چاہیے۔
انہوں نے چھوٹے اوردرمیانے درجے کےکاروبارکو پائیدارسپورٹ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسی پالیسیاں بنانا ہوں گی جو نوجوانوں کے شروع کردہ کاروبار کوفروغ دیں۔
’حکومت کو تنخواہوں اور پینشن میں اضافے اورتنخواہ دارطبقے پر ٹیکس کم کرنے کے اقدامات کرنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’آئینی فریم ورک میں وفاقی کی نمائندگی میرا فرض ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو میں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ میرے پاکستان ہمیشہ پہلے آتا ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق مشترکہ اجلاس سہ پہر تین بجے شروع ہوا۔
اجلاس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں اور داخلے پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق مہمانوں کے داخلے پر مکمل پابندی ہے جبکہ میڈیا نمائندوں کو محدود تعداد میں اجازت دی گئی ہے۔
ملک کے آئین کے آرٹیکل 56 کے مطابق صدر ہر پارلیمانی سال کے پہلے اجلاس کے آغاز پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہیں۔
یہ خطاب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکمران مسلم لیگ (ن) اور آصف علی زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات نمایاں ہو رہے ہیں۔
دونوں جماعتیں مرکز میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے کوئی وزیر وفاقی کابینہ میں شامل نہیں لیکن اس کے ووٹ حکومتی اتحاد کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
حال ہی میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) کے رویے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے جسے انہوں نے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ ’لاتعلقی پر مبنی رویہ‘ قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ انہیں پنجاب میں نظرانداز کیا جا رہا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔
حال ہی میں پیپلز پارٹی کی زیر قیادت سندھ حکومت نے وفاق کی جانب سے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکال کر پنجاب کے صحرائے چولستان کو سیراب کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔
سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان نئی نہروں کی تعمیر سے ملک کے سب سے بڑے دریا میں صوبے کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔