دنیا بھر میں آج انسداد منشیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، آگاہی سرگرمیوں، ٹرکوں کے ٹرک نذرآتش کرنے اور سخت سخت اقدامات کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں جو سال بھر ہی کیے جاتے ہیں۔
سال بھر ہی بڑے پیمانے پر منشیات کو جلانے کی خبریں سامنے رہتی ہیں اور سال بھر ہی کسی نہ کسی نئے نشے کا بھی انکشاف ہوتا ہے۔
مگر صورتحال کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔
اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ منشیات اب ہمارے سکولوں اور کالجوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔
انسداد منشیات کے وزیر شہریار آفریدی بھی گذشتہ سال اس حوالے سے بڑے بڑے دعوی کرتے رہے ہیں اور قومی اسمبلی میں سکولوں کے لیے ڈرگ ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کے لیے دو بل بھی پیش کیے گئے تھے۔
لیکن کیا اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام ہوا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک غیرسرکاری تنظیم کے گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق صرف دارالحکومت اسلام آباد میں نجی سکولوں کے 53 فیصد طلبہ منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کے پیش نظر انڈپینڈنٹ اردو نے کرونا وائرس کی وبا سے قبل جب سکول کھلے تھے اسلام آباد کے ایک بڑے نجی سکول کی طالب علم سے بات کی جو خود بھی منشیات کا استعمال کرتی ہیں۔
پڑھیے ان کی کہانی انہی کی زبانی
.’میں تواتر سے تمباکو نوشی کرتی ہوں لیکن اب تک صرف ہیش یعنی چرس کا استعمال ہی کیا ہے۔‘
’اس سے مجھے سکون ملتا ہے، کیونکہ میں نے ایک طویل عرصے تک اینٹی ڈپریشن ادویات کا استعمال کیا ہے لیکن پھر جب میں نے باقی لوگوں کو بھی دیکھا کہ وہ اس (چرس) کا استعمال کرتے ہیں اور خوش بھی دکھائی دیتے تھے۔‘
’باقی لوگوں سے مراد میرے دو تین قریبی دوست ہیں، زیادہ نہیں صرف قریبی دوست۔ ان میں بھی زیادہ تر لڑکے ہیں لڑکیاں کم ہی استعمال کرتی ہیں۔‘
’پہلے تو ایک آد بار ہی کرتی تھی مگر تین ماہ سے چرس باقاعدگی سے استعمال کر رہی ہوں۔‘
’میں خود لاتی ہوں خود بناتی ہوں اور اس میں کسی کو شامل نہیں کرتی۔‘
’آغاز میں مشکل تھا کیونکہ کھانسی آتی تھی اور ذائقہ گندہ لگتا تھا اور نشہ بھی نہیں چڑتا تھا۔ مگر جب اس کا اثر ہونے لگا تب فیصلہ کیا کہ یہ کام روکا نہیں جا سکتا۔‘
چرس آسانی سے مل جاتی ہے؟
’اگر آپ کا تعلق ہے تو بہت آسان ہے۔ ہمارے سکول میں بہت لوگ ہیں جو تواتر سے استعمال کرتے ہیں، تو دو ہی آپشن تھے یا تو آپ ان سے نمبر مانگ لیں یا سٹف۔‘
’مجھے بار بار مانگنا پسند نہیں تھا تو میں نے نمبر ہی مانگ لیا، اب میرا اپنا ڈیلر ہے۔‘
’میں نے اس ڈیلر سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ کہاں آنا ہے، میں مقررہ مقام پر انتظار کر رہی تھی تو اس نے کال کی اور پوچھا کتنے کی چاہیے، میں کبھی ایک ہزار، کبھی دو تو کبھی تین ہزار کی لے لیتی۔‘
’دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں پہلی بار لینے گئی تو ہمیں ڈر لگ رہا تھا جبکہ ڈیلر آرام سے آیا اور دے کر چلا گیا۔‘
’جیسے سلام کرتے ہیں ویسے ہی ایک ہاتھ سے پیسے لیے اور اسی ہاتھ سے دے دی۔‘
باقی کلاس فیلو بھی چرس ہی استعمال کرتے ہیں؟
’نہیں میں ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو ڈرنک کرتے ہیں۔ وہی ڈیلر جو چرس مہیا کرتے ہیں وہ الکوحل بھی فراہم کر دیتے ہیں۔‘
’چرس کے علاوہ ای سی اور ویڈ بہت عام ہیں جبکہ ڈیلر نے براؤن شوگر کا بھی کہا تھا کہ نئی چیز ہے آپ نے ٹرائے کرنی ہے؟‘
’وہ مجھے سمجھ نہیں آیا تو میں نے اس سے کہا کہ نہیں مجھے کوئی الٹا سیدھا کام نہیں کرنا۔‘
ہوتا کیا ہے؟
’ہر کسی کا ردعمل الگ ہوتا ہے۔ میں سست اور خاموش ہو جاتی ہوں۔ مجھے نیند زیادہ آتی ہے اور ساتھ میں بھوک بھی زیادہ لگتی ہے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ میں زیادہ تر گھر پر ہی کرتی ہوں اور عوامی مقامات پر اس کے استعمال سے اجتناب ہی کرتی ہوں۔
’اب تک گھر والوں کو پتہ نہیں چلا مطلب ٹھیک ہی ہے۔‘
سکول میں کیا ہوتا ہے؟
’اکثر سکول اور حکومت کی طرف سے الرٹ آجاتا ہے کہ ڈرگ ٹیسٹ لیا جائے گا۔‘
’ٹیچر اس بارے میں بات نہیں کرتے مگر ٹیچرز کو معلوم ہوتا ہے کہ کون لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں اور کون لوگ نہیں کرتے۔‘
’منشیات کا استعمال اب بہت بڑھ چکا ہے۔ اب تو گریڈ سیون کے بچے بھی ان کاموں میں لگ چکے ہیں۔‘
’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ان تک رسائی آسان ہو گئی ہے، اسی لیے مشکل نہیں ہوتی اور کوئی ڈرتا بھی نہیں ہے۔‘
’اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ میرے کچھ دوست پارک میں بیٹھ کر منشیات کا استعمال کر رہے تھے تو پولیس والے ان سے لے کر چلے گئے۔ ان کو کہا کچھ نہیں بس لے کر چلے گئے۔‘
’مجھے یقین ہے کہ انہوں نے خود استعمال کر لی ہوگی۔‘
اسلام آباد میں کہاں کہاں مل سکتی ہے؟
’اسلام آباد میں مجھے ایک جگہ معلوم ہے مگر کچھ معروف جگہیں جہاں نوجوان بیٹھتے ہیں وہاں تھوڑی کوشش کریں تو مل جاتی ہیں۔‘
’جیسے میرے ابو بھی اکثر کہتے ہیں کہ تعلق ہوگا تو ملے گا ورنہ نہیں ملے گا۔‘
کبھی خیال آیا کہ یہ کیا کر رہی ہوں؟
’جب کھانسی آتی ہے اور الٹیاں کرتی ہوں تو روز لگتا ہے کہ غلط کر رہی ہوں۔ مگر میرے لیے اسے چھوڑنا مشکل بھی نہیں۔‘
’اگر مجھے ابھی کوئی کہے کہ چھوڑ دو تو چھور دوں گی کیونکہ میرے لیے اتنا مشکل نہیں۔‘
ایسا نہیں لگتا کہ لت لگ ہی جائے گی؟
’یہ بندے بندے پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔‘
’آپ کتنا (نشہ) کرتے ہو؟ دن میں کتنا، ہفتے میں کتنا کرتے ہو۔‘
’مجھے تو جب نصیب میں آتا ہے مل جاتی ہے نہیں تو نہیں۔‘
اس تحریر کا مقصد منشیات کا استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا بالکل نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد حکام بالا اور والدین کی توجہ اس طرف دلانا ہے کہ منشیات کس طرح سے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔