پاکستان کے سوشل میڈیا ٹرینڈز میں آج کل وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی کا ایک ویڈیو کلپ گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ جو منشیات تلف کر دی جاتی ہے اسے دوا بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
شہریار آفریدی ایک تقریب میں تقریر کے دوران کہتے دکھائی دیے: ’وزیراعظم عمران خان نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جو منشیات اینٹی نارکوٹکس والے تلف کرکے جلا دیتے ہیں، اس کے لیے ایک کارخانہ بنایا جائے جس میں اس کو دوا بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘
اس ویڈیو کلپ پر جہاں مختلف لوگوں کی طرف سے انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا، وہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آئے کہ شہریار آفریدی کی بات میں وزن ہے اور چرس کو واقعی دوا بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان ہی سوالات کی کھوج لگانے کے لیے کچھ ماہرین سے بات کی کہ اگر واقعی چرس یا دیگر منشیات سے کوئی دوا بنائی جا سکتی ہے تو وہ کون سی دوا ہے؟ اور ہم کس طرح اسے ایک اچھے مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے استاد پروفیسر فضل ناصر، جنہوں نے فارماسوٹیکل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پوری دنیا میں اس حوالے سے کام ہو رہا ہے کہ کینیبس جسے عام زبان میں چرس کہا جاتا ہے، سے دوا بنائی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر اسے شدید درد کی صورت میں استعمال ہونے والی دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ’جیسا کہ کینسر کے مریض کو آخری سٹیج میں درد سے آرام کے لیے جو دوا دی جاتی ہے اس میں کینیبس استعمال کی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈپریشن کے علاج کے لیے دوا میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ’ایسا بھی نہیں ہے کہ چرس کو کسی دوا میں ملایا جاتا ہے بلکہ اس کے خاص مواد کو کینیبس کے پودے سے کشید کیا جاتا ہے اور پھر سائنسی بنیادوں پر اس کو دوا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سائنس کی زبان میں چرس ایک دوا ہے لیکن اگر اس کا استعمال ضرورت سے زیادہ کیا جائے تو وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہیروئن بھی بطور دوا استعمال کی جاتی ہے لیکن اگر اس کی مقدار زیادہ ہو جائے تو یہ نقصان دہ ہے۔
پروفیسر فضل ناصر نے وضاحت کی کہ ’تمام ڈرگز کو سائنسی بنیادوں پر آلٹر یا موڈیفائی کیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ کسی سٹیج پر دوا بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر دیکھا جائے تو چرس عام زبان میں نشہ ہے لیکن سائنسی زبان میں اس کو ڈرگ کہا جاتا ہے۔ اس کو اگر بطور دوا استعمال کیا جائے تو صحت کے لیے بہتر اور اگر نشے کے لیے استعمال کیا جائے تو نقصان دہ ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’یہ ممکن تو ہے تاہم یہ خطرہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کا غلط استعمال شروع ہو جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ قوانین میں اس کو شیڈول فور ڈرگز میں ڈالا گیا ہے تاکہ اس کا غلط استعمال روکا جائے۔‘
کیا چرس کا استعمال محفوظ ہے؟
پیٹر گرنسپون ہارورڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں پڑھاتے ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر میریوانا یا چرس کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں انہوں نے اسی موضوع پر بات کی ہے کہ کیا چرس کا استعمال محفوظ ہے اور آیا اس کو قانونی طور پر استعمال کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں؟
پیٹر نے لکھا ہے کہ ’امریکہ کی 29 ریاستوں میں چرس کے استعمال کی اجازت ہے تاہم وفاقی حکومت کی نظر میں یہ غیر قانونی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ جو اس کو استعمال کرتا ہے اس کو نہ چھیڑا جائے تاہم ٹرمپ انتظامیہ اب اس پالیسی کو تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہے۔‘
انہوں نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ چرس میں سو کے قریب مختلف مواد ہوتے ہیں اور سی بی ڈی کے علاوہ ٹی ایچ سی یعنی ٹیٹرا ہائیڈرو کینی بینائل ایسا کیمکل ہے جو بطور نشہ استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم پیٹر کے مطابق سی بی ڈی کو ڈپریشن، شدید درد، مرگی کے علاج کے لیے دوا میں استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مقصد مریض کو آرام دینا ہے۔
پیٹر لکھتے ہیں کہ ’چرس یا میریوانا کو پٹھوں کے درد میں آرام دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ پارکنسن یا رعشہ کی بیماری میں آنے والے جھٹکوں کو کم کرنے میں یہ مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق میریوانا کو گلاکوما یا سبز موتیا کے علاج کے لیے دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے تاہم انہوں نے لکھا ہے کہ بیماریوں کی ایک فہرست ہے جس کے علاج کے لیے میریوانا کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور تاحال اس کا استعمال صرف مستند ڈاکٹر کے نسخے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔