تہران امریکی پابندیوں میں جکڑی اپنی بدحال معیشت اور دیگر اقتصادی چیلنجوں سے نکلنے کے لیے ملک کے جنوب مشرق میں واقع ویران بندرگاہ چابہار کی جانب دیکھ رہا ہے۔
خلیجِ فارس سے باہر اور پاکستان کی سرحد سے محض ایک سو کلومیٹر دور چابہار ایران کی دوسری بڑی بندرگاہ ہے۔
امریکہ نے 2018 میں ایران پر دوبارہ یک طرفہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں تاہم بھارت کے دباؤ کے باعث اسے ان پابندیوں سے استثنٰی دیا گیا ہے۔
اپنے روایتی حریف پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے نئی دلی نے چابہار بندرگاہ پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
اس بندرگاہ کے فعال ہونے سے خشکی سے گِھرے افغانستان کا پاکستان پر انحصار ختم ہو جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چابہار بندرگاہ کو ریلوے لنک کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے ملایا جائے گا۔ اس منصوبے کو شمال جنوب راہداری کا نام دیا گیا ہے۔
ایرانی وزیر برائے مواصلات اور شہری ترقی محمد اسلامی نے اے ایف پی کو بتایا کہ چابہار بندرگاہ پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے جس میں سڑکوں اور ریلوے لائنز کا جال، ہوائی اڈہ اور دیگر منصوبے شامل ہیں تاکہ شمال جنوب راہداری کو عملی شکل دی جا سکے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ بندرگاہ کے 2017 میں فعال ہونے کے باوجود یہاں کاروباری سرگرمیاں عروج تک نہیں پہنچ پائیں۔
چابہار سالانہ 85 لاکھ ٹن سے زیادہ تجارتی سامان ترسیل کرنے کی قابلیت کی حامل بندرگاہ ہے تاہم یہاں اب تک لنگرانداز ہونے والے 20 بحری جہاز محض 21 لاکھ ٹن سامان ہی ترسیل کر پائے ہیں۔
لیکن ایرانی حکام یہاں جلد کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے حوالے سے پُرامید ہیں۔
ایرانی اہلکار حسین شہدادی کے مطابق گذشتہ برس کے مقابلے میں اس سال تجارتی سامان کی ترسیل میں 56 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلیجِ عمان کے راستے چابہار بندرگاہ پر بحری جہازوں کی آمدورفت میں بھی 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارتی کمپنی ’انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ‘ نےچابہار بندرگاہ آپریٹ کرنے کے لیے ایرانی حکومت سے دس سالہ معاہدہ کیا ہے۔
کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ارون کمار گپتا کے مطابق چابہار بندر گاہ ابتدائی مراحل میں ہے اور مستقبل میں یہاں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوں گی۔
گپتا کا کہنا تھا کہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث یہ بندرگاہ افغانستان اور بھارت کے درمیان پُل کا کردار ادا کرے گی جس سے دونوں ممالک کے درمیاں تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔
تاہم ایران کے صوبے سِستان بلوچستان میں سلامتی کی بگڑتی صورتحال سے اس بندرگاہ کو خطرات بھی لاحق ہیں۔
گذشتہ برس دسمبر میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد یہاں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
امریکی اقتصادی پابندیاں اور رقوم کی آزادانہ ترسیل پر پابندی بھی چابہار بندرگاہ کو متاثر کر سکتی ہیں۔