افغانستان کے ایک طاقتور جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم، جن پر دہائیوں سے مخالفین کے اغوا اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 66 سالہ عبدالرشید دوستم کو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مارشل کا عہدہ دیا گیا ہے۔ وہ افغانستان میں یہ عہدہ حاصل کرنے والے تیسرے فوجی رہنما ہیں۔
طالبان سے مذاکرات کرنے والی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے جمعے کو اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ 'میں آپ کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی عہدہ حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ کو مارشل کا عہدہ دینا ان ہزاروں مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو کئی سال سے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانیں دے رہے ہیں۔'
اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن افغان میڈیا کے مطابق عبدالرشید دوستم کو مارشل کا عہدہ دینے کا فرمان صدر اشرف غنی نے جاری کیا ہے۔
دوسری جانب دوستم کے ترجمان نے اس فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے۔
عبدالرشید دوستم کے ترجمان بشیر احمد تائنج نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ فیصلہ سالوں پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔'
دوستم اس سے قبل 2014 میں قائم ہونے والی اشرف غنی حکومت کے نائب صدر رہ چکے ہیں لیکن ان سے اختلافات کے بعد وہ عبداللہ عبداللہ کے اتحادی شمار کیے جاتے تھے۔
عبداللہ عبداللہ اور دوستم دونوں ہی ستمبر 2019 کے نتائج کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان انتخابات میں اشرف غنی دوبارہ منتخب ہوئے تھے لیکن مخالفین کی جانب سے ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
دوستم نے اشرف غنی کی کامیابی کو ایک 'بغاوت' قرار دیا تھا جبکہ عبداللہ عبداللہ کی جانب سے بھی کئی مہینوں تک اس کامیابی پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان یہ تنازع مئی میں حل ہوا تھا جس کے بعد طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ دوستم کو مارشل کا عہدہ دیا جائے گا۔
بیہمانہ جرم
دوستم ایک ازبک جنگجو کمانڈر ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ افغانستان کا ایک طاقتور کردار رہے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں افغان فوج میں شمولیت کے بعد وہ کئی بار اتحادی بدل چکے ہیں۔ پہلے وہ سویت یونین کے ساتھ مل کر مجاہدین کے خلاف لڑ چکے ہیں جبکہ وہ طالبان کا تختہ الٹنے والے اتحاد میں بھی شامل رہے ہیں۔
اشرف غنی کی سابقہ حکومت میں وہ نائب صدر تو رہے ہیں لیکن یہ عہدہ صرف نام تک محدود تھا اور انہوں نے اس دوران اپنا زیادہ تر وقت ترکی میں جلاوطنی میں گزارا تھا۔ ان پر 2016 میں اپنے سیاسی مخالف احمد ایشچی کے اغوا اور ریپ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
دوستم اور ان کے باڈی گارڈز کے خلاف یہ مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے۔
ایشچی کے بیٹے بکتش ایشچی نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اس موضوع پر ہونے والے مذاکرات کی مذمت کی تھی۔
بکتش ایشچی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا کہ 'عبدالرشید دوستم کو عہدہ دینے کے بجائے انہیں میرے والد کے خلاف بیہمانہ جرم سرزد کرنے پر ایک قانون پر عمل کرنے والے شہری کی طرح عدالت میں کیوں نہ پیش کیا جائے۔'
انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپس بھی عبدالرشید دوستم پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ جن میں 2001 میں امریکی حملے کے بعد ہزاروں طالبان قیدیوں کا قتل بھی شامل ہے۔
تاہم عبدالرشید دوستم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ کابل سے تعلق رکھنے والے صحافی سید ناصر موسوی کہتے ہیں کہ 'گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان کے تنازعے میں ملوث تمام افراد مسلح ملیشیاز رکھتے ہیں اور طالبان دور کے بعد بھی انسانی حقوق افغانستان کی سیاست کا شکار بنتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فرد کا احتساب نہیں کیا گیا۔'
گذشتہ برسوں میں عبدالرشید دوستم کئی قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہیں۔ 2018 میں ان پر کابل میں ہونے والے حملے میں 23 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔