مشہور زمانہ موبائل اور کمپیوٹر گیم پب جی پر پاکستان میں عارضی پابندی جاری رہے گی یا پھر پابندی اٹھا لی جائے گی، اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
جمعرات کو پی ٹی اےکے ڈائریکٹر جنرل ویب انالیسسز ڈویژن اور ڈائریکٹر جنرل لا سمیت پانچ رکنی بورڈ نے سوا دو گھنٹے جاری رہنے والی سماعت کے دوران فریقین کے موقف سنے۔
سماعت میں پب جی گیم کے خلاف شکایت کنندگان، پاکستان میں اس گیم کو چلانے والی سنگاپور کی کمپنی پروکسیما بیٹا Proxima Beta کے وکیل، متاثرہ گیمرعبد الحسیب ناصر بذات خود جبکہ ٹی وی میزبان وقار ذکا وڈیو لنک سے شریک ہوئے۔ وقار ذکا نے پب جی گیم پر پابندی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
پب جی کے مخالف والدین کا موقف تھا کہ اس گیم سے بچوں کی نفسیات اور ذہنی حالت پر منفی اثر مرتب ہو رہا ہے لہٰذا پابندی برقرار رہنی چاہیے۔
لاہور میں خود کشی کے واقعے کے بعدپب جی پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کرنے والے فیضان مقصود کے وکیل بلال نے کہا کہ پب جی کی وجہ سے بچوں میں قوت فیصلہ کی کمی اور شدت پسندی بڑھ رہی ہےلہٰذا پاکستانیوں کی اس گیم تک رسائی ختم کی جائے۔
اس موقعے پر لاہور پولیس حکام نے کہا کہ اس گیم کی وجہ سے دو خود کشی کےکیس سامنے آئے ہیں اور یہ نوجوانوں کے لیے 'خطرناک ڈیجیٹل نشہ' بنتا جا رہا ہے۔
عبد الحسیب کے وکیل اقبال میکن نے دلائل دیے لیکن کمرے میں موجود متاثرہ فریق عبد الحسیب اتنے بے چین تھے کہ وہ خود بورڈ کے سامنے پب جی کو بحال کرنے کے لیے دلائل دینے لگے۔ انہوں نے پی ٹی اے کو بتایا کہ انہوں نے پب جی کے ایک ٹورنامنٹ میں 50 لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم بھی جیتی ہے اور حکومت پاکستان کو اُس پر ٹیکس بھی ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلی جا سکتی ہے تو ای سپورٹس کیوں نہیں کھیلی جا سکتی؟ جب کرکٹ کھیلنے کی عادت نشہ نہیں کہلاتی تو پب جی کھیلنے کو نشہ کیوں تصور کیوں جا رہاہے؟ دلائل دینے کے دوران وہ کافی پریشان اور دباؤ کا شکار لگ رہے تھے۔
یہ دیکھ کر ڈائریکٹر جنرل سائبر ویجیلنس پی ٹی اے نے ان سے پوچھا کہ پب جی کھیلنے سے آپ کی صحت پرکوئی اثر پڑ رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ' نہیں مجھے کچھ نہیں ہو رہا ،میں ٹھیک ہوں۔'
حسیب ناصر نے استدعا کی رواں ماہ اس گیم کا ٹورنامنٹ ہے تو کم از کم ایک مہینہ پابندی اٹھا لی جائے، جس پر پی ٹی اےحکام نے جواب دیا کہ آج آپ کا ٹورنامنٹ ہے ،آپ کے لیے پابندی اٹھائیں تو کل کسی اور کا ٹورنامنٹ ہو گا ، وہ درخواست دے دے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وقار ذکا نے موقف اپنایا کہ وہ صرف پب جی ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل اور ای سپورٹس کے حوالے سے پی ٹی اے جو پابندیاں لگاتا ہے اس سے پاکستان کااچھا امیج نہیں جاتا اور یہ پابندیاں نہیں ہونی چاہییں۔
پروکسیما بیٹا کے وکیل کے مطابق پب جی گیم کی کمپنی کا موقف یہ ہے کہ یہ گیم آن لائن پیسے کمانے کا بڑا ذریعہ ہے، پابندی سےسپانسر شپ ختم ہونے کا خدشہ ہے جس سے پاکستان کو معاشی نقصان ہوگا۔ انہوں نے پی ٹی اے میں موقف اختیار کیا کہ اس پابندی سے پاکستان الیکٹرانک سپورٹس میں بلیک لسٹ ہوسکتا ہے۔
پی ٹی اے نے تمام فریقین کو تحریری دلائل 10 جولائی دن بارہ بجے تک جمع کرانے کی ہدایت جاری کرتے ہوئےسماعت مکمل کر لی۔ واضح رہے کہ پب جی موبائل ورلڈ لیگ کے پہلے مرحلے کے میچ کل سے کھیلے جائیں گے اور اگر کل تک پابندی ختم نہ ہوئی تو پاکستانی گیمرز اس میں شامل ہونے سے رہ جائیں گے۔
پی ٹی اے حکام کے مطابق پب جی کے خلاف وقت کے ضیاع اور عادی بنانے کے ساتھ بچوں کی جسمانی و ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کی شکایات موصول ہوئیں تھیں جبکہ عارضی پابندی اٹھانے کے لیے بھی ہزاروں آن لائن درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔
پی ٹی اے نے یکم جولائی سے پب جی گیم پر عارضی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نےمعاملہ پی ٹی اے کو بھیجا تھا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اس گیم کو کنٹرول کرنے والی کمپنی نے پابندی کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔