خیبر پختونخوا کی کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کسٹ) نے طلبہ کے انٹرنیٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، جس کے مطابق اب طلبہ باآسانی اساتذہ کے آن لائن لیکچرز سے مستفید ہو سکیں گے۔
یونیورسٹی نےتمام مضامین کے لیکچرز ریکارڈ کروا کر انہیں طلبہ تک پہنچانے کے لیےنو دیہات میں یونیورسٹی کے ذیلی دفاتر کھول دیے ہیں۔
یونیورسٹی نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا، جب کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے بعد طلبہ کا سال ضائع ہونے سے بچانے کے لیے آن لائن کلاسز کی تجویز سامنے آئی تاہم جب دور دراز کے علاقوں میں مقیم بہت سے طالب علموں نے انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا نکتہ اٹھایا، تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نےیونیورسٹیوں کو لیکچرز ریکارڈ کروانے اور انہیں طلبہ کے علاقوں تک پہنچانے کی تجویز دی۔
کسٹ کے شعبہ تعلقات عامہ کے افسر اور اسسٹنٹ پروفیسر ذیشان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تجویز پر سب سے پہلے اور مستعدی سے کام کرنے کا اعزاز صرف ان کی یونیورسٹی کو جاتا ہے، جہاں تقریباً ڈھائی مہینے کے عرصے میں یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے مختلف مضامین کے دو ہزار لیکچرز تیار کروائے گئے اور ساتھ ہی ساتھ دفاتر کھولنے کے لیے طالب علموں سے ایک سروے بھی کروایا گیا۔
ذیشان بنگش کے مطابق: 'اس سروے میں یونیورسٹی کے ہر ایک طالب علم سے ان کو دستیاب انٹرنیٹ کی سہولت کے حوالے سے مختلف سوالات پوچھے گئے اور پھر اسی سروے کی بنیاد پر نو علاقوں میں دفاتر کھولے گئے جن میں جنڈ، کرک، بنوں، ٹانک، ہنگو، ٹل، پاڑہ چنار، مردان اور چکدرہ شامل ہیں۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ اس مقصد کی خاطر یونیورسٹی نے اپنا ایک سرور بھی سیٹ اپ کیا ہے جس میں لیکچررز وقتاً فوقتاً لاگ ان ہو کر اپنا لیکچر رکھواتے ہیں۔
یونیورسٹی نے نو دیہات میں یونیورسٹی کے ذیلی دفاتر کھول دیے ہیں۔ (تصویر: کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی)
ذیشان بنگش نے بتایا کہ ہر علاقے کے دفتر کے لیے یونیورسٹی کے طلبہ میں سے ہی ایک کوآرڈینیٹر کو تنخواہ پر رکھا گیا ہے، جو ہفتے میں ایک بار یونیورسٹی جاکر نئے لیکچرز کو دفتر منتقل کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالب علم دفتر جانے سے پہلےکوآرڈینیٹر کو فون کرکے معلوم کریں گے تاکہ زیادہ رش نہ بنے اور پھر کوآرڈینیٹر کی اجازت کے بعد طلبہ اپنی یو ایس بی لے جاکر مطلوبہ لیکچر حاصل کریں گے اور ساتھ ہی اپنی حاضری بھی لگوائیں گے۔'
اس حوالے سے پاڑہ چنار میں قائم کیے گئے دفتر کے کوآرڈینیٹر اور کسٹ کے طالب علم شعبان علی نے بتایا کہ ماسوائے پاڑہ چنار شہر کے ضلع کرم کے جتنے بھی دیہات ہیں، وہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ اور دوسرے طالب علم کافی پریشان تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 'لیپ ٹاپ اور یو ایس بی سب طالب علموں کے پاس ہے، صرف انٹرنیٹ کا مسئلہ تھا اور وہ حل ہو گیا ہے۔ یہ دفتر ہفتے میں پانچ دن صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک کھلا رہے گا۔'
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے یازیب وزیر کوہاٹ یونیورسٹی سے انگلش میں ایم اے کر رہے ہیں اور ٹل میں قائم یونیورسٹی کے دفتر کےکوآرڈینیٹر بھی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ میر علی، میران شاہ اور اس سے متصل دوسرے علاقوں کے طالب علموں کے لیے یہاں تک پہنچنا قدرے دشوار ہے، لہذا انہوں نے یونیورسٹی سے ان علاقوں میں بھی ایک دفتر کھولنے کی درخواست کی ہے۔
اس مسئلےکو جب ہم نے پروفیسر ذیشان بنگش کے سامنے رکھا تو انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی مزید دفاتر کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہر طالب علم تک لیکچرز پہنچ سکیں۔
یازیب علی نے طالبات سے متعلق سوال پر بتایا کہ وہ بھی ان دفاتر میں جاکر اپنے مطلوبہ لیکچر حاصل کر سکیں گی۔
تاہم پاڑہ چنار کی ریشماں بی بی کا کہنا ہے کہ وہ چونکہ نباتیات میں ریسرچ کر رہی ہیں لہذا اکثریت کے برعکس وہ اور ان کی طرح دیگر پریکٹیکل پڑھائی کرنے والے طلبہ ایسے منصوبوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
اس حوالے سے ذیشان بنگش کہتے ہیں کہ 'یونیورسٹی نے اس کا بھی حل نکالا ہے اور عید کے بعد پریکٹیکل ورک اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے ہاسٹل کھولنے کا ارادہ کیا ہوا ہے اور چونکہ ان کی تعداد اتنی نہیں ہے، لہذا وہ یونیورسٹی میں رہ کر ریسرچ کر سکیں گے۔'