نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر گذشتہ سال فائرنگ کرنے والے آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ نے اپنے وکلا مقدمے سے الگ کرتے ہوئے سزا سنوائی کی سماعت کے روز اپنی نمائندگی خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کےاس اقدام سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ سزا سنائے جانے کے عمل کے دوران سفید فام برتری پر مبنی اپنے خیالات کی تشہیر کریں گے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برینٹن ٹیرنٹ کو 51 افراد کے قتل، اقدام قتل کے 40 جرائم اور دہشت گردی کے جرم میں 24 اگست کو سزا سنائی جانی ہے۔ وہ گذشتہ برس اس قتل عام کے مرتکب ہوئے تھے جسے نیوزی لینڈ کی جدید تاریخ میں بدترین قرار دیا گیا ہے۔ وہ اپنے جرائم کا اعتراف کر چکے ہیں۔
پیر کو ہائی کورٹ کے جج کیمرون مینڈر نے ٹیرنٹ کے وکلا شین ٹیٹ اور جوناتھن ہڈسن کو ان کے کلائنٹ کی درخواست پر مقدمے کی کارروائی سے الگ ہونے کی اجازت دے دی۔ تاہم جج نے اگلے ماہ ٹیرنٹ کے مقدمے کی سماعت کے موقعے پر ان کی نمائندگی کے لیے ایک وکیل تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ٹیرنٹ آک لینڈ کی جیل سے ویڈیو لنک پر کرائسٹ چرچ کی عدالت میں پیش ہوئے۔
نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن کے صدر اخلاق کشکری نے ٹیرنٹ کے مقاصد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کرنے والے شخص کو کٹہرے سے انتہائی دائیں بازو کے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دینے سے فائرنگ متاثرہ افراد ایک پھر ذہنی اذیت کا شکار ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'یہ پڑھ کر میری پہلی تشویش یہ تھی کہ 'اوہ میرے خدا، یہ شخص کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کو پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریات اور خیالات کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں؟'
ان کا کہنا تھا کہ ٹیرنٹ کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کی وجہ سے بہت سارے لوگ اب تک صدمے سے دوچار ہیں وہ سزا سنائے جانے کے عمل کو ان واقعات کے اختتام کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس سے یہ قصہ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا جس سے لوگوں کو مزید تکلیف پہنچے۔
یاد رہے کہ ٹیرنٹ نے مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں حملہ کر کے 51 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں بچے، خواتین اور معمر افراد بھی شامل تھے۔
ٹیرنٹ کو سزا سنائے جانے کی کارروائی تین دن پر مشتمل ہو گی۔ اس موقعے پر فائرنگ میں بچ جانے والے متاثرہ خاندانوں کے لوگ عدالت میں موجود ہوں گے۔
اسلامک ویمن کونسل آف نیوزی لینڈ کی ترجمان انجم رحمان ٹیرنٹ کی بات نہیں سننا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں وہ ظاہر کرچکے ہیں کہ وہ توجہ پسند کرتے ہیں اور اب وہ ہی ایسا ہی چاہتے ہیں یہی ان کی سوچ ہے۔