کیا دنیا شمالی امریکہ کی قدیم مقامی خواتین کے قتلِ عام اور گمشدکی کے واقعات پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے؟
براعظم شمالی امریکہ میں صدیوں سے آباد قدیم مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین پُراسرار طور پر قتل یا لاپتہ ہو رہی ہیں اور دنیا اس بارے میں یکسر خاموش ہے۔
’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ اس بارے میں آگاہ ہیں یا نہیں، وہ ہر صورت ہمیں قتل کر دیں گے۔‘ یہ کہنا تھا ایک مقامی خاتون ایڈرے ہنٹلی کا جن کا خیال ہے کہ اب تک اغوا یا قتل کی گئیں قدیم مقامی خواتین کا مسئلہ ایک ناگُفتہ راز ہے۔
’اگر ہم یہ سوچیں کہ اس بارے میں خاموشی توڑنے سے کچھ تبدیل ہو گا تو بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔‘
ہنٹلی نے کہا: ’گذشتہ دو دہائیوں میں احتجاجی مارچ کرنے، سیاست دانوں کی توجہ حاصل کرنے اور بین الاقوامی میڈیا پر آگاہی کے باوجود شمالی امریکہ کے اس بڑے بحران میں اضافہ ہی ہوا ہے، وہ ہمارا قتل جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
امریکہ اور کینیڈا میں قدیم مقامی لڑکیوں اورخواتین کا غیرمتناسب شرح سے قتل یا لاپتہ ہونے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ امیریکن انڈین اور الاسکا سے تعلق رکھنے والی خواتین میں موت کی تیسری بڑی وجہ قتل ہے۔
2015 میں کینیڈا میں قتل ہونے والی خواتین میں سے ایک چوتھائی کا تعلق قدیم مقامی خاندانوں سے تھا جبکہ 1980 میں یہ شرح صرف نو فیصد تھی۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو قدیم مقامی خواتین کے قتل اور غائب ہونے کے واقعات کی قومی سطح پرتحقیق کا حکم دے چکے ہیں جبکہ امریکی سینٹ مقامی خواتین پربڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف ’سوانا‘ ایکٹ متفِقہ طور پر منظور کر چکی ہے۔
اس سب کے باوجود فیس بک ایسی پوسٹس سے بھری پڑی ہے جن میں قدیم مقامی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، جسمانی حملے اور قتل جیسے بیہمانہ اور دلخراش واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ اور ان واقعات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
جنسی زیادتی کی شکار ایک اور مقامی لڑکی ایلیا مک ایورکے مطابق کینیڈا میں قدیم مقامی افراد کو کسی نہ کسی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا وہ کسی ایسے مقامی خاندان کو جانتے ہیں جس نے اپنا کچھ کھویا ہو۔
’میں نے اپنے دو قریبی رشتوں کو کھویا ہے، ایک میری بہنوں جیسی دوست اور دوسری میری کزن جن کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘
قتل اور گمشدگی کے اکثر مقدمات کبھی حل ہی نہیں ہوپائے اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ میگی ایسی ہی مقامی خاتون ہیں جو اپنی بہن کے قاتلوں کو گذشتہ 25 سالوں سے تلاش کر رہی ہیں۔
کینیڈا میں ایسے واقعات کی قومی سطح پر انکوائری 2015 میں شروع کی گئی تھی اور اب تک 1484 خاندان اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں۔
امریکہ میں حالات اس سے بھی بدترہیں جہاں صرف 2018 میں قدیم مقامی خواتین کی گمشدگی کے 5،277 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، 2017 میں یہ تعداد 5،646 اور 2016 میں 5،711 تھی۔ کینیڈا کے برعکس یہاں کوئی انکوائری بھی شروع نہیں کی جا سکی۔
قدیم مقامی خواتین کے خلاف اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والے جرائم کے خلاف امریکہ میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا، اگر یہی صورتحال سفید فام یا غیرمقامی امریکی خواتین کو درپیش ہوتی تو ملک میں کہرام مچ گیا ہوتا اور ہر جانب انصاف کے مطالبے کی دہائی دی جا رہی ہوتی۔
اربن انڈین ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں جو 29 امریکی ریاستوں کے 71 شہروں میں سروے کے بعد مرتب کی گئی تھی، بتایا گیا ہے کہ قدیم مقامی خواتین کے خلاف سب سے زیادہ واقعات نیومیکسیکو میں رونما ہوتے ہیں جبکہ واشنگٹن اس حوالے سے دوسری بدترین ریاست ہے۔
رپورٹ کئی لرزہ خیز حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جس کے مطابق ایک سال سے بھی کم عمر کی بچی سے 83 سالہ بزرگ خاتون تک ان واقعات سے متاثرہ خواتین میں شامل ہیں۔
امریکہ میں ان اموات کے اندراج کےحوالے سے بھی رپورٹ خطرے کی حد تک ہولناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے کہ کیسے نسل پرستی کی بنیاد پران واقعات کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔
ایسے ہی واقعات میں ایک خاتون کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے دیا گیا جبکہ دوسری خاتون کی موت کی وجہ مشکوک طور پر دوائی کی زیادہ مقدار بتائی گی۔
قتل کے بعد خواتین کی گمشدگی کے واقعات قدیم قبائلی باشندوں کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ ہے جس میں کمی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
ٹیمیرا بیئربھی ایک ایسی ہی خاتون ہیں جو اپنی جواں سال بیٹی کی گمشدگی کا صدمہ برداشت رہی ہیں، ان کی 20 سالہ بیٹی گذشتہ برس جولائی سے لا پتہ ہیں۔
’اپنی بیٹی کے بغیر گزارے گئے یہ آٹھ ماہ مجھے صدیوں سے زیادہ طویل لگتے ہیں، میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے، میں بس اُسے اپنی بانہوں میں میں لینے کے لیے بےقرار ہوں۔ یہ ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہے اور لگتا ہے میں ابھی بیدارہو جاؤں گی۔‘
کینیڈا کے بعد، امریکی حکومت بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے بیدار ہو رہی ہے اس سلسلے میں قانون سازی بھی جاری ہے۔ امریکی سینٹ سوانا ایکٹ منظور کر چکی ہے۔
یہ ایکٹ 22 سالہ سوانا کے نام پر رکھا گیا ہے جو 2017 میں شمالی ڈکوٹا سے اس وقت لا پتہ ہو گئیں تھیں جب اُمید سے تھیں۔ گمشدگی کے آٹھ روز بعد ان کی لاش دریا کے کنارے سے ملی تھی اورقتل سے پہلے ان کے بچے کوبھی پیٹ پھاڑ کرہلاک کر دیا گیا تھا۔
بے دردی اور سنگدلی کی یہ واحد مثال نہیں ہے، ایسے بہت سے واقعات دنیا کو ہلانے کے لیے کافی ہیں لیکن کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔
مزید پڑھیں؛
کیا لڑکیوں سے ’ناانصافی‘ ماں کے پیٹ سے شروع ہو جاتی ہے؟
ریڈ انڈینز کی نسل کشی کی وجہ سے دنیا برفانی دور کی زد میں آ گئی تھی
انسانی حقوق سے وابسطہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے قدیم مقامی باشندوں کی حفاظت کے لیے کیئے گئے اقدامات ناکافی ہیں اور وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سوانا ایکٹ کو اس سال جنوری میں دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے حا لانکہ دونوں ریپپلیکن اورڈیموکریٹک جماعتیں اس ایکٹ کی حمایت کرتی ہیں تاہم اس کے نافذ کرنے کے لیے مزید قانونی مراحل حائل ہیں۔
حال میں ہونے والے ملکی تاریخ کے طویل ترین شٹ ڈاؤن کے باعث اس میں مزید تاخیر متوقع ہے۔
انسانی حقوق سے وابسطہ کارکنوں کا ماننا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ تعلیم، صحت، گھروں کی فراہمی اور پولیس نظام میں بہتری سے قدیم مقامی خواتین کو تشدد سے بچایا جا سکتا ہے۔
قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی عدم موجودگی ، رابطوں اور آگاہی کے فقدان سے ان جرائم کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
واضح اعداد و شمار ، مجرموں کے احتساب اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے بغیر ان قدیم مقامی خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا خاتمہ ناممکن ہے۔