انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے، جنہیں آن لائن کے علاوہ آف لائن بھی ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگرچہ صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بہت سی تحقیق ہوچکی ہے لیکن اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ خصوصاً خواتین صحافیوں کو کس قسم کے خطرات اور مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے اسی حوالے سے ایک تحقیق کی، جس کا ایک مقصد تو پاکستان میں خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنا ہے، دوسرا اس حوالے سے تجاویز دینا ہے کہ ان پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کے مطابق، ’یہ رپورٹ میڈیا انڈسٹری میں موجود خواتین کی مشکلات کا احاطہ کرتی ہے اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے صحافت کی دنیا میں آگے بڑھنا کس قدر مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آن لائن اور آف لائن، دونوں صورتوں میں انہیں صنفی تفریق کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں ان کے کام کی بجائے لباس اور چال ڈھال کے حوالوں سے پرکھا جاتا ہے۔‘
نگہت داد کے مطابق خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے مسئلے کے خاتمے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ صحافت کی دنیا میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بڑھنے سے، مرد ساتھیوں کے مقابلے میں خواتین صحافیوں کو زیادہ آن لائن ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ آن لائن ہراسگی صرف ناخوشگوار ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات اصل زندگی میں بھی پڑتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اکثرو بیشتر مرد حضرات اپنی طاقت اور مردانگی کا مظاہرہ کرکے خواتین کی آواز کو دبا دیتے ہیں۔ اس طرح کی ہراسگی میں جنسی زیادتی اور قتل کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
اس دوران جن خواتین کے انٹرویوز کیے گئے انہوں نے بتایا کہ اکثر و بیشتر ایسی کسی شکایت پر انہیں ان کے ایڈیٹرز یا سپروائزرز کی جانب سے مناسب حمایت نہیں ملتی۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خواتین کو ان کی صنف کی وجہ سے پریس کلبوں کی رکنیت نہیں دی جاتی یا اگر وہ رکن ہوں بھی تو وہاں کا ماحول ایسا نہیں ہوتا کہ وہ وہاں جاسکیں۔ ایک خاتون صحافی کے مطابق کئی سال سے پریس کلب کی رکن ہونے کے باوجود بھی وہ اُسی وقت وہاں جاتی ہیں جب ان کے مرد ساتھی، انہیں وہاں ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی اس رپورٹ میں خواتین صحافیوں کو درپیش سائبر ہراسگی پر بھی بات کی گئی ہے، جس سے تنگ آکر وہ یا تو خود اپنے آپ پر سیلف سنسرشپ عائد کرلیتی ہیں، یا پھر میڈیا انڈسٹری ہی چھوڑ دیتی ہیں، کیونکہ اگر وہ اپنے کیریئر میں آگے بڑھنا چاہیں تو ان کے اہلخانہ یا معاشرے کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خواتین صحافی اپنے آپ پر دو طرح سے پابندیاں لگاتی ہیں، ایک تو وہ ایسے موضوعات پر لکھتی ہی نہیں، جس میں انہیں خطرات کا سامنا ہو جبکہ دوسرا وہ سوشل میڈیا پر اپنے نظریات، خیالات یا تبصروں کے حوالے سے بہت محتاط رہتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جب خواتین سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے خود سے اپنے اوپر سنسرشپ عائد کی تو کچھ صحافیوں نے بتایا کہ وہ توہین مذہب سے متعلق معاملات پر کچھ نہیں لکھتیں جبکہ کچھ نے بتایا کہ وہ کسی مخصوص سماجی مسئلے پر اس لیے نہیں لکھتیں کیونکہ وہ رِسک نہیں لینا چاہتیں۔
تاہم کچھ خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی اسٹوریز میں کوئی کانٹ چھانٹ نہیں کرتیں۔
اس رپورٹ میں ریاست، میڈیا ہاؤسز، سول سوسائٹی اور پریس کلبوں کو اس حوالے سے تجاویز دی گئی ہیں کہ کس طرح خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جاسکتا ہے اور اگر وہ تشدد یا آن لائن ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں تو انہیں کس طرح تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
میڈیا ہاؤسز کو دی گئی ایک تجویز تو یہ ہے کہ انہیں اعلیٰ عہدوں پر زیادہ سے زیادہ خواتین کو مواقع دینے چاہئیں، تاکہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والی خواتین کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔
اس کے علاوہ میڈیا اداروں کو صحافیوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے کاؤنسلنگ اور خواتین صحافیوں کو فیلڈ میں کام کے دوران اپنے دفاع کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
آخر میں پریس کلبوں کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ انہیں خواتین کے لیے اپنے دروازے کھولنے چاہییں، تاکہ وہ وہاں خود کو محفوظ تصور کرسکیں اور وہاں آکر دیگر صحافیوں خصوصاً خواتین سے مل سکیں اور اپنے خیالات کا تبادلہ کرسکیں۔
یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ پریس کلبوں میں ماہانہ بنیادوں پر اس طرح کی میٹنگز ہونی چاہییں، جہاں خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا جاسکے۔