پاکستان کی معیشت اکیلے عمران خان نے تباہ کی ہے اور نہ ہی اکیلا عمران خان اسے بہتر کر سکتا ہے۔ ہمیں ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کیا سیاسی قیادت یہ بھاری پتھر اٹھا سکے گی؟
معیشت تحلیل ہو رہی ہے، برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے۔ پارلیمان میں مگر کسی کو اس المیے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں۔ شعلہ بیاں مقررین یہاں سج دھج کر تشریف لاتے ہیں اور ایک دوسرے کی ہجو کہہ کر چلے جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو سن کر اب خوف آنے لگا ہے۔
اتنی سطحیت ہے کہ لگتا ہی نہیں یہ کسی ریاست کی پارلیمان ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کچھ بے فکرے، کھلنڈرے سے لڑکے بالے ہیں جو آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھ کر مشاعرہ پڑھ رہے ہیں۔
یہ تحریر خود مصنف کی آواز میں سنیے
معیشت مزید تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عمران خان کی مثالیت پسندی نے جو تجربات کیے ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ کہاں وہ عالم شوق کہ اٹھتے بیٹھتے ایک ہی نعرہ تھا، ’ہم نے چھوڑنا کسی کو نہیں‘ اور کہاں یہ مراجعت کہ اعلان عام ہے تعمیرات کے شعبے میں پیسہ لگائیے، آپ سے ذریعہِ آمدن نہیں پوچھا جائے گا۔
گویا بعد از خرابی بسیار یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ خوف اور سرمایہ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اب سرمائے کی جستجو ہے اور احتساب کا غلغلہ تعمیرات کے شعبے کی حد تک تھم چکا ہے۔ جی چاہے تو اسے حکمت کہہ لیجیے اور جی چاہے تو اسے این آر او کا نام دے لیجیے، لیکن سچ یہ ہے کہ معاشی حالات کی سنگینی غزل اور جواب آں غزل کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ہم جہاں تک آ پہنچے ہیں اس میں کسی ایک حکمران کا قصور نہیں اس کہانی میں سبھی کردار شامل ہیں۔ یہ کہنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں کہ ہم تو اچھی معیشت چھوڑ گئے تھے، عمران نے تباہ کر دی۔ معیشت اعداد و شمار کی واردات سے بہتر نہیں ہوتی۔ معیشت آمدن کے امکانات سے بہتر ہوتی ہے۔
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ ہماری برآمدات ہی کتنی ہیں؟ کہنے کو ایک زرعی ملک ہیں لیکن زرعی برآمدات کا عالم کیا ہے؟ کیا کوئی مربوط پالیسی کبھی متعارف کرائی گئی؟ کپاس آپ کی معیشت میں کتنی اہم ہے، اس حوالے سے ہماری پالیسی کیا رہی؟ ہمارے ہاں کیا کسی صنعت نے ایسی ترقی کی کہ ہم اطمینان کا اظہار کر سکیں؟
ہماری معاشی ترک تازی کی کل متاع اتنی سی ہے کہ ہم قرض لیتے رہے، ملک چلاتے رہے اور کاغذ پر اعداد و شمار کے کمالات دکھاتے رہے۔ ہمیں اب خود کو اور دوسروں کو مزید دھوکہ دینے سے اجتناب کرتے ہوئے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ معیشت کے میدان میں ہم سب ناکام ہوئے ہیں۔ مختصر سی کہانی یہ کہ یہ ڈھلوان کا سفر تھا، عمران کو اقتدار ملا تو سفر میں تیزی آ چکی تھی اور اس کے پاس بھی کوئی حکمت عملی نہ تھی۔ اس کے ہاتھ بھی خالی تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاملہ فہمی کی راہ میں کچھ فکری گرہیں حائل تھیں تو وہ عمران خان کے آنے سے کھل گئی ہیں۔ راز کی یہ بات اب سب جان چکے ہیں کہ معیشت کا معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا کہ لوٹ مار ہو رہی تھی اور ایک ایمان دار قیادت کے آنے سے سب کچھ بہتر ہو جاتا۔
سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اب تو وہ لوٹ مار بھی مبینہ طور پر روکی جا چکی ہے لیکن معیشت پھر بھی نہیں سنبھل پا رہی۔ معیشت اقوال زریں سے بہتر ہو سکتی ہے نہ ہی احتساب کے کوڑے سے اور نہ ہی بھینسیں بیچ کر۔ معیشت کو بہتر کرنا ہے تو پیداواری امکانات بڑھا کر اپنی اجتماعی ذرائع آمدن میں اضافہ کرنا ہو گا۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ اس کے لیے میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔
الزام اور طنز و تشنیع کے چکر سے نکل کر سب کو بیٹھ کر ایک پائیدار اور طویل المدت معاشی پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔ سیاست جیسے مرضی کرتے رہیے لیکن مل بیٹھ کر یہ طے کر لیجیے کہ اگلے 20 سال کے لیے پاکستان کی معاشی سمت یہ ہو گی اور اس کی معاشی پالیسی کے بنیادی خدوخال یہ ہوں گے۔
اقتدار کی تبدیلی اس پالیسی کی جزئیات میں تو حالات کے مطابق ردو بدل کر لے لیکن پالیسی کا بنادی ڈھانچہ مستقل رہے۔ سرمایہ کار کو بھی پتہ ہو کہ اس ملک میں اگلے 15 سال کے معاشی امکانات کیا ہیں اور چیلنج کیا ہیں اور وہ سرمایہ کاری کرنا چاہے تو اسے غیر یقینی کی کیفیت اپنی گرفت میں نہ لیے رکھے۔
ابھی تو یہ عالم ہے کہ کسی کو علم نہیں ہوتا کب کون سی حکومت کون سی پالیسی لے کر آ جائے۔ سیاسی عدم استحکام کے آزار نے خود حکومتوں کے اپنے مستبل کو مشکوک بنا رکھا ہے۔ ایک حکومت آتی ہے سال بعد اس کے جانے کی تاریخیں دی جانے لگتی ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور غیر یقینی کے اس عالم میں سرمایہ کاری کیسے ہو سکتی ہے؟
سب کو مل بیٹھ کر معیشت کی مبادیات طے کرنا ہوں گی۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ اگلے دس بیس سال کے لیے ہمارے معاشی اہداف کیا ہیں اور ان اہداف کے حصول کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟ کہاں امکانات ہیں اور کس شعبے میں کتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے؟ سرمایہ کاری کے عمل میں مسائل اور مشکلات کیا ہیں اور ضابطے کی ان پیچیدگیوں کو کیسے آسان بنایا جا سکتا ہے؟
ہمیں طے کرنا ہو گا کہ آئندہ کے لیے ہمیں کس طرح کی افرادی قوت درکار ہے؟ کیا ہم نے مزید دس پندرہ سال ایف اے، بی اے اور ایم اے کی ناکارہ اور بانجھ ڈگریاں بانٹ کر اپنے مسائل میں اضافہ کرنا ہے یا ہم نے اپنے اہداف کے مطابق اور ضروریات سے ہم آہنگ تعلیمی نظام دینا ہے، جہاں سے متعلقہ شعبوں کے ایسے ہنر مند لوگ سامنے آئیں جن کی ملکی معیشت کو ضرورت ہو اور جن کی قابلیت رٹا لگا کر لی گئی چند ناکارہ ڈگریاں نہ ہوں۔
یہ ایک ہمہ جہت میثاق ہو گا جو ملک کی معاشی ضروریات کے تناظر میں اپنے پورے ریاستی ڈھانچے کا جائزہ لے گا اور اپنی ضروریات سے ہم آہنگ کرے گا۔کیا ہماری قیادت یہ بھاری پتھر اٹھا پائے گی؟