سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قومی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے آزادانہ نقل وحرکت کی درخواست کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر کی ان کی وکلا سے دو گھنٹے کی آزادانہ ملاقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'ہم ڈاکٹر صاحب کی آزادی کا تحفظ کریں گے۔'
منگل کو سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین الدین نے ریمارکس دیے کہ 'ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے لیے محترم اور اثاثہ اور قومی ہیرو ہیں، اگرقومی ہیرو نہ بھی ہوتے تو ملک کے شہری تو ہیں۔'
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ یہ حساس معاملہ ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر ہرگز قید میں نہیں ہیں بلکہ ان کے مفاد کے لیے انہیں سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ 'ان کی سیکیورٹی ہٹانا ان کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔'
اس بات پر جسٹس قاضی امین الدین نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ڈاکٹر عبدالقدیر کسی دشمن ملک یا کسی ایجنسی کو مطلوب ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'بے شک ہماری سرحدوں پر بہت دشمن ہیں لیکن میں ان معاملات پر عدالت میں زیادہ بات نہیں کرسکتا۔'
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے کسی کی ملاقات پر پابندی نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ عدالتی حکم کے مطابق عبدالقدیر خان سے متعلقہ افسران نے ساتھ دو مرتبہ ملاقات کی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے کچھ تحفظات دور کیے ہیں جبکہ باقی پر پیش رفت جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی تھی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 24 جون کو موکل سے ملنے کی درخواست دی اور کل ملنے کے لیے کہا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس مشیر عالم نے وکیل سے پوچھا: 'آُپ اپنے موکل سے کب ملنا چاہتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیا: 'میری ملاقات آج ہی کروا دیں۔'
جسٹس مشیر عالم نے کہا: 'ٹھیک ہے۔ آج دو گھنٹے کے لیے ملاقات کریں اور ملاقات میں جو ہو اس سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔'
ڈاکٹر قدیر کے وکیل نے عدالت سے مزید کہا کہ اُن کے موکل نے درخواست دی ہے کہ اس مقدمے میں انہیں عدالت میں حاضر ہونے کی اجازت دی جائے، جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اس درخواست پر بعد میں غور کریں گے۔ ان کا کہنا تھا: 'مقدمے کو کس انداز میں چلانا ہے فیصلہ ہمیں کرنا ہوتا ہے۔'
واضح رہے کہ رواں برس ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست میں استدعا کی تھی کہ ان کی نقل و حرکت کو محدود کیا گیا ہے اور ملاقات کے لیے آنے والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک عام انسان کی طرح اپنی بقیہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نظر بند کیوں؟
سال 2003 میں اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ بعد ازاں سرکاری ٹی وی پر ڈاکٹر قدیر نے غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے جرم کا اعتراف کیا جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
فروری 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی نظربندی ختم کرنے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر ایک آزاد شہری ہیں۔ عدالتی حکم میں ان کی نظربندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند ہیں اور ہر وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے ہیں۔