کراچی کے اورنگی ٹاؤن کی فقیر کالونی میں واقع عمر بلوچ محلے کے رہائشی دل وش (بلوچی زبان کا لفظ جس کے معنی ہے دل خوش) نامی عمر رسیدہ کاریگر کئی نسلوں سے پتوں کی ٹوکری بنانے کا کام کرتے ہیں۔
ٹوکری بنانا ایک دشوار کام ہے۔ اس کے لیے یہ کاریگر اورنگی ٹاؤن کے پہاڑوں پر قدرتی طور پیدا ہونے والے پیش کے پودوں کے پتے کاٹ کر لاتے ہیں، اور ان پتوں سے پہلے ایک پٹی بناتے ہیں۔ ایک بڑی سائز کی ٹوکری کے لیے پٹی بنانے کا معاوضہ کاریگر کو صرف ساڑھے تین روپے ملتا ہے۔
بعد میں اس پٹی کو سلائی کرکے ٹوکری بنانے کا ساڑھے سات روپے اور کُنڈا لگانے کا ڈھائی روپے معاوضہ ہے۔
بقول دل وش کے، پتے لانے، پٹی بنانے، پٹی کی سلائی کرکے ٹوکری تیار کرنے پھر اسے کنڈا لگانے کے ایک کاریگر کو تقریباً چھیالیس روپے ملتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہاڑوں سے پتے لانے اور پٹی بنانے والے الگ کاریگر ہیں۔ جب کہ ٹوکری بنانے اور کنڈا بنانے کے ایک کاریگر کو دس روپے ملتے ہیں اور عام طور پر ایک کاریگر ایک دن میں تیس ٹوکریاں بنالیتا ہے جس کا معاوضہ اسے تین سو روپیہ ملتا ہے۔
دل وش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا : ' آج کل کے مہنگائی والے دور میں تین سو روپے تو کاریگر کے جیب خرچے کے لیے بھی کافی نہیں، گھر کا خرچہ نکالنا تو دور کی بات ہے۔'
انھوں نے کہا کہ لوگ لاکھوں کا جانور لاتے ہیں مگر اس جانور کا گوشت جس ٹوکری میں رکھا جاتا ہے وہ صرف چھیالیس روپے کی ہوتی ہے۔
'یہ ایک مشکل ہنر ہے۔ ہر وقت بیٹھنا پڑتا ہے جس سے جسم میں مستقل درد رہتا ہے۔ ٹوکری بناتے ہوئے زخم لگتے ہیں، انگلیوں میں درد ہوجاتا ہے جبکہ کئی کاریگروں کے ہاتھ اور انگلیاں مستقل یہ کام کرنے سے ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔'