’مطیع بھائی آپ کے اغوا ہونے اور واپس آنے کے اس دن سے رات تک کے وقفے میں جو کوئی اچھی چیز ہوئی ہے وہ آپ کے نوجوان بیٹے کا انٹرویو سننا ہے۔ اس نے ریاست سے آئینی سوال نہایت مودبانہ انداز میں پوچھے۔ آپ تو صحافی ہیں سوال جواب کا خوب تجربہ ہے لیکن بیٹا اس معاملے میں بازی لے گیا۔‘
میں نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک کے باہر صحافیوں کے جمگھٹے میں گھرے مطیع اللہ جان سے کہا۔ کہنے لگے میرے لیے بھی حیرت کی بات ہے کئی اور دوست بھی یہی بتا رہے ہیں۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے بعد ان کا بیٹا مختلف انٹرویوز میں دبنگ، مختصر اور متوازن بولا۔ ہمارے دور میں نوجوان باشعور تو ہیں ہی لیکن بولنا بھی خوب جانتے ہیں۔ آج کی تحریر ایسے ہی نوجوانوں کی لیے ہے جنہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ خاموش رہنے اور بولنے کی فطری جبلت میں کس کو کب منتخب کریں۔
خاموشی تو بس خاموشی ہی ہوتی ہے لیکن ڈھنگ کا بولنا اور بکواس کرنے میں فرق جاننا ضروری ہے۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ شور کرنا، چیخنا اور بات بے بات ادھم مچانا کیا ہوتا ہے۔
تو دوستوں یہ جو خاموشی ہوتی ہے نا یہ بھی بڑے کام کی شے ہے۔ ناراض ہوں تو بن کہے احتجاج ریکارڈ ہو جاتا ہے، رشتے نبھانے ہوں تو بڑی بوڑھیاں لڑکیوں کے پلو میں یہ نصیحت باندھ دیتی ہیں کہ بیٹی ایک چپ سو سکھ یعنی سب جانتے بوجھتے خاموش رہو اور باتیں سنتے جاؤ کڑوے گھونٹ پیتے جاؤ۔ سسرال والے اس خصلت والی کو میسنی سیانی گُھنی کہتے ہیں۔
بعض لوگوں کا چپ رہنا ہی ان کی شخصیت کی سب سے اچھی بات ہوتی ہے کیونکہ وہ منہ کھولیں تو کفن پھاڑ، مٹی جھاڑ بولتے ہیں جب تک بولتے ہیں سننے والا اذیت ہی جھیلتا ہے۔ چپ رہنا جاہلوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جو کم کم ہی جہلا کو استعمال کرنا آتا ہے۔ خاموشی اس وقت بھی کام آتی ہے جہاں کم علمی کے باعث جتنا بولو اتنا پھنسو والی کیفیت کا سامنا ہو۔
کم گو کی ویسے ہی عزت بنی رہتی ہے کہ اللہ جانے مغرور ہے، بڑا عالم فاضل ہے۔ کچھ خاموش لوگوں پر تاثر یہ جاتا کہ شاید بالکل ہی گھامڑ ہے جس کی اپنی نہ کوئی سوچ ہے نہ رائے۔ بڑوں کے سامنے خاموش رہنا تعظیم سمجھا جاتا ہے اور بروں کے سامنے خاموشی کا دوسرا نام اپنی کھال بچانا ہوتا ہے۔
یاران حق ایسے خاموش رہنے والوں کو منافق کہا کرتے ہیں جو بوقت ضرورت بھی منہ میں گھنگنیاں ڈالے رہتے ہیں۔ یہ چپ گھنے خود کو غیرمتنازع ثابت کرنے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں مگر ان کی خاموشی انہیں غیر اہم بنا دیتی ہے۔گپ چپ رہنے والے کسی کے ہاتھ اپنی کمزوری تو نہیں دیتے، مگر ان کی سب سے بڑی کمزوری ہی ان کی زباں پر پڑے تالے اور دل میں گڑے جالے ہوتے ہیں۔
چپ رہنے کی تھیوری کے بالکل متضاد ہے بولنا۔ یہ جذباتی لوگوں کا شیوہ ہے جو کوئی بھی بات دل میں رکھنے، جو محسوس کریں اسے جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ دماغ کے کنویں میں ٹرٹراتے مینڈکوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بےتکا اور بےتکان بولنے والوں کا سب سے بڑا خسارہ یہی ہے کہ یہ بول بول کر اپنی بات گنوا دیتے ہیں، کھوپڑی تھکا لیتے ہیں لیکن ان کی بات بےاثر ہی رہتی ہے، ظاہر ہے کوئی بکواس کہاں تک سنے۔ بہت سے جاہل صرف اس لیے زیادہ بولتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے وہ کم بولے تو لوگ انہیں وہی سمجھیں گے جو وہ ہیں۔
لیکن بولنے والوں کی بہت سی اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ چپ نہیں رہتے اس لیے کیونکہ ان سے منافقت نہیں ہو پاتی۔ یہ زبان درازی کے خمیازے بھگت لیتے ہیں پر چپ کے نہیں بیٹھتے۔
وقت ضرورت یہ بولنے والے اپنے شور سے مخالف کے کان پھاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ان کا شور کبھی کبھی نازک مزاج دوستوں کو بھی گراں گزرتا ہے۔ ان کے بول کے آگے دوست ٹکے نہ دشمن۔ یہ ظلم ہوتا دیکھتے ہیں جب بھی شور مچاتے ہیں، خود ان پہ وقت آن پڑے تب تو اور بھی زیادہ۔
بولنے والے کڑوا کسیلا بولنے کی وجہ سے اٹھا لیے جاتے ہیں، واپس آ جائیں تو اور بولتے ہیں۔ بات بےبات ان کا بولنا آئینہ دکھانا انہیں متنازع بنائے رکھتا ہے مگر دل جلے یہی دو بول ان کی طاقت بھی ہوتے ہیں۔
تو دوستوں خاموشی کے مقابلے میں کم مگر معیاری بولنے، سوچ سمجھ کر پڑھ لکھ کر بولنے، کسی مقصد کے لیے بولنے، حق کی خاطر بولنے، سچ بولنے اور ظلم منافقت اور جھوٹ کی نفی کے لیے بولنے کی قدر ہوتی ہے۔ لیکن آپ کا بولنا خالی ڈھول کی طرح ہو، آپ کے بول آپ کی کم علمی کا پول کھول دیں، آپ کا بولنا ٹریفک سگنل پر مچے بےمعنی شور جیسا ہو، نفرت و گالم گلوچ لیے ہو مختصراً یہ کہ آپ کا بولنا محض بکواس ہو تو آپ کا چپ رہنا بہتر ہے۔
اور وہ سیانے لوگ جو نوجوان نسل کی کسی سنجیدہ رائے پر یہ فقرہ کستے ہیں کہ ’جناب جنہیں گھر والے بات بےبات یہ کہہ کر اٹھا دیتے ہیں کہ جاؤ بیٹا یہاں بڑوں کی بات ہو رہی ہے، اب وہ بھی دانشوری جھاڑنے لگ گئے‘ بہتر ہے اس پھکڑپن کو اب ترک کیجیے۔
جب کوئی نوجوان کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر اپنی رائے دیتا ہے۔ یہ رائے کچی پکی ہوتی ہے، اس رائے میں بچپنے کی جھلک اور سادگی ہوتی ہے، اس نوجوان کو اعزازی نمبر دینے چاہیے کہ کم از کم اس نے اپنی رائے کے اظہار کی جرات تو کی۔ رائے بےسروپا ہے تو اسے پڑھنا کا مشورہ دیجیے، غلط ہے تو تصحیح کیجیے، سراسر بکواس ہے تو اول نظر انداز کیجیے، بدتمیزی پر اتر آئے تو ایک شٹ اپ کال ضرور دیجیے۔ یاد رہے آپ کی شٹ اپ کال خود کوئی لغو بات نہ ہو۔
سماجی یا سیاسی موضوعات پر بولنے والے نوجوان اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کم عمر بچوں کے ہاتھ سے آپ موبائل چھین سکتے ہیں نہ ہی ان سے یہ امید لگا سکتے ہیں کہ وہ سوچنا، بولنا چھوڑ دیں۔ ایسے نوجوانوں کا مذاق اڑانا سب سے بڑی غلطی ہے۔
اٹھارہ سال کے بعد تو ریاست بھی ایک نوجوان سے یہ امید لگاتی ہے کہ وہ سیاسی فیصلہ کرے اور اپنے حکمران کا انتخاب کرے۔ اب یہ آپ اور ہمارا کام ہے کہ ہم ان نوجوانوں کو خاموش رہنے اور بولنے کی جبلتوں کے درمیان بہترین کے انتخاب کا ہنر سکھائیں۔