برطانیہ میں مسلسل آلو کے چپس، سنیکس اور ساسیج کھانے والا نوجوان بینائی اور قوت سماعت سے محروم ہو گیا ہے۔
برطانیہ کے جنوب مغربی شہر برسٹل سے تعلق رکھنے والے نوجوان کے خاندان کو صورتحال کی سنگینی کا احساس اس وقت ہوا جب 14 برس کی عمر میں لڑکے کی قوت سماعت کم ہونا شروع ہوگئی۔
لڑکے کی والدہ کہتی ہیں ان کے بیٹے کی بینائی بھی تیزی سے کم ہوئی اور اب انہیں ملازمت سمیت سماجی زندگی سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔
خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے بیٹے نے سات سال کی عمر میں معمول کا کھانا چھوڑ دیا اور اس کی جگہ، چپس، پرنگلز، ساسیج، ڈبہ بند سور کا گوشت اور سفید ڈبل روٹی کھانی شروع کر دی۔
خاتون نے کہا: ’پہلے پہل ہمیں اس بارے میں تب پتہ چلا جب وہ پرائمری سکول سے واپس آتا تھا تو اس کا لنچ باکس ویسے کا ویسا بھرا ہوتا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں اسے سکول میں کھانے کے لیے عمدہ سینڈ وچ، سیب یا دوسرے پھل دیا کرتی تھی لیکن وہ اس میں سے کچھ نہیں کھاتا تھا۔ اس کے اساتذہ بھی اس رویئے پر فکرمند ہو گئے تھے۔‘
لڑکے کی والدہ نے مزید بتایا: ’ان کے بھائی اور بہن نے معمول کا کھانا کبھی ترک نہیں کیا۔ وہ سب کچھ پسند کرتے ہیں لیکن وہ ایسے ہی چست اور صحت مند تھا جیسے اس کے بہن بھائی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’وہ ہمیشہ سے دبلا پتلا تھا اس لیے ہمیں اس کے وزن کے حوالے سے کوئی فکر نہیں ہوئی۔ آپ ہر وقت فاسٹ فوڈ اور موٹاپے کے بارے میں سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ماچس کی تیلی جیسا دبلا تھا۔‘
اس وقت متاثرہ لڑکے کی عمر 19 برس ہے اور وہ (avoidant-restrictive food intake disorder یا ARFID) نامی بیماری کا شکار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کھانے پینے کے مسائل اور بیماریوں کا شکار افراد کے لیے کام کرنے والے سرگرم ادارے ’بیٹ‘ کے مطابق اس بیماری میں مبتلا افراد اکثرمخصوص ریشوں، خوشبو، ذائقے اور شکل والی خوراک کھانے سے گریز کرتے ہیں یا اس خوراک کو اس وقت کھاتے جب اس کا ایک خاص درجہ حرارت ہو۔
غذائیت میں کمی کی وجہ سے متاثرہ نوجوان کی بصارت کا نظام بری طرح متاثر ہو کر ایک قسم کے مرض میں مبتلا ہو گیا جسے ’نیو ٹریشنل آپٹک نیفروپیتھی‘ کہا جاتا ہے۔
نوجوان کی 40 برس سے زیادہ عمر کی والدہ نے کہا: ’جو کچھ ہو چکا تھا جب ہمیں اس کے بارے میں بتایا گیا تو یقین نہیں آیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس کی بینائی میں تیزی سے کمی آئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے نابینا ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس کی بینائی کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔‘
’اس کی کوئی سماجی زندگی نہیں رہی جس کے بارے وہ بات کرے۔ سکول چھوڑنے کے بعد اس نے آئی ٹی کورس کے لیے کالج میں داخلہ لیا لیکن کورس چھوڑنا پڑا کیونکہ وہ کچھ دیکھ اور سن نہیں سکتا تھا۔‘
نوجوان کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹر ڈینیز ایٹن نے اپنے مریض کی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا کہ وہ اب بھی وہی خوراک کھا رہا ہے۔ تاہم وٹامن سپلیمنٹس کے استعمال سے اس کی غذائیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر ڈینیز ایٹن کا تعلق یونیورسٹی ہاسپٹلز برسٹل این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ سے ہے۔ انہوں نے کہا: ’جب بچپن میں کوئی رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو وہ جوانی تک برقرار رہتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’پروسیسڈ خوراک بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صرف اس خوراک پر انحصار کیا جائے اوردوسری کوئی چیز نہ کھائی جائے۔‘
ڈاکٹر ڈینیز نے کہا: ’غذائیت سے بھرپور اجزا (نیوٹرینٹس) قوت سماعت اور بصارت کے لیے انتہائی ضروری ہیں لیکن بہت سے لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔‘
خاندان نے متاثرہ نوجوان کے کیس کی تفصیل طبی جرائد ’اینلز آف انٹرنل میڈیسن‘ میں شائع کرنے پر راضی ہوگئے تا کہ لوگوں کو غذائیت کی کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں آگاہی حاصل ہو اور انہیں آنکھوں اور کانوں کی اچھی صحت کے لیے غذائیت سے بھر پور خوراک کی اہمیت کا پتہ چلے۔
اس رپورٹ میں ایس ڈبلیو این ایس کی معاونیت شامل ہے۔