بیروت میں ہونے والے شدید نقصان دہ دھماکے کے خلاف لبنانی عوام کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے جنہوں نے ان جذبات کا اظہار فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے دورے کے دوران بھی کیا اور لبنان کے رہنماؤں کو دارالحکومت میں ہونے والے تباہ کن اور ہلاکت خیز دھماکے کا ذمہ دار قرار دیا۔
عوام کے ہجوم نے اس موقعے پر ’انقلاب‘ کے نعرے لگائے جس پر فرانسیسی صدر نے لبنانی سیاستدانوں پر اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالنے کا وعدہ کیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق منگل کی شام ہونے والے دھماکے کی تحقیقات کرنے والے ایک فوجی جج نے بتایا کہ بیروت کی بندرگاہ کے 16 ملازمین کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ پورٹ اور کسٹم حکام سمیت 18 افراد سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
لیکن ایک ایسے وقت جب تفتیش کار بندرگاہ کے ملازمین کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں، لبنانی عوام کی اکثریت نے اس حادثے کا الزام سیاسی اشرافیہ، ان کی بدعنوانی اور بدانتظامی پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس تباہی سے قبل ہی انہوں نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
لبنان کے کسٹمز چیف نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کابینہ کو ایک سکیورٹی ایجنسی نے خبردار کیا تھا کہ بیروت کی بندرگاہ کے گوادام میں کئی سالوں سے پڑے دھماکہ خیز کیمیکلز کا ذخیرہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ اعلیٰ لبنانی قیادت پر غفلت برتنے کا سنگین الزام ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیروت دھماکے کی مبینہ وجہ بننے والے تین ہزار ٹن کے قریب امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ 2013 کے بعد سے بندرگاہ کے گودام میں موجود تھا جب اسے ایک غیرملکی کارگو جہاز سے ضبط کیا گیا تھا۔
مشرقی بحیرہ روم کے اس پار قبرص تک محسوس کیے جانے والے اس دھماکے میں اب تک 130 سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں جب کہ کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔
دھماکے کے دو روز بعد حکام کے اندازے کے مطابق بیروت کی 12 فیصد سے زیادہ آبادی یعنی تین لاکھ کے قریب لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں آسکتے ہیں۔
تباہ شدہ ہسپتال بھی اب تک زخمیوں کے علاج کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سینکڑوں افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔
لبنانی عہدے داروں نے دھماکے سے 10 ارب سے 15 ارب ڈالر تک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا ہے۔
یہ تباہی ایسے وقت آئی ہے جب معاشی بحران سے دوچار اس ملک کی عوام پہلے ہی بے روزگاری اور غربت کے شکار ہیں اور اکثر لوگوں کے پاس اپنے تباہ حال گھروں اور کاروباروں کی تعمیر نو کرنے کے لیے رقم موجود نہیں ہے جب کہ حکومت بیرونی امداد کی منتظر ہے۔
جمعرات کو ایک مختصر دورے میں لبنانی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے بعد فرانس کے صدر میکرون نے اعلان کیا کہ ان کا ملک آئندہ چند روز میں یورپی، امریکی، مشرق وسطیٰ اور دیگر امداد فراہم کرنے والے ممالک اور تنظیموں کی کانفرنس کا اہتمام کرے گا تاکہ لبنان کی عوام کے لیے خوراک، ادویات، رہائش اور دیگر فوری امداد کے لیے رقم اکٹھی کی جا سکے۔
ماضی میں فرانس کی نو آبادی رہنے والے ملک لبنان کی عوام نے صدر میکرون سے کئی امیدیں لگا لی ہیں۔
تباہ شدہ بندرگاہ کا دورہ کرنے کے بعد فرانسیسی صدر تباہ حال علاقوں سے گزرے تو وہاں عوام کا ہجوم جمع ہوگیا جو انقلاب کے نعرے لگاتے رہے۔
میکرون نے اس موقع پر کہا کہ وہ لبنانی حکومت کو ایک نیا سیاسی معاہدہ تجویز کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں ستمبر میں دوبارہ لبنان آؤں گا اور اگر وہ (حکومت) کام نہیں کرسکی تو میں آپ کی طرف اپنی ذمہ داری نبھاؤں گا۔‘
انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ فرانسیسی امداد شفافیت کے ساتھ دی جائے گی اور اسے بدعنوان عناصر کے ہاتھ میں نہیں دیا جائے گا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ لبنان کے کسی بھی بڑے سیاستدان نے دھماکے سے تباہ شدہ رہائشی علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔
میکرون کے واپس فرانس جانے کے بعد بیروت میں سینکڑوں مظاہرین نے سرکاری دفاتر اور پارلیمنٹ جانے والی سڑکوں پر مشتعل ریلی نکالی، سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا ، ٹائر جلائے اور سیاسی اشرافیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔
سکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے راؤنڈ فائر کیے۔
حکام نے کچھ ہی دنوں کے اندر تحقیقات کے نتائج جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے اور صدر مشیل آؤن نے کا کہنا ہے کہ جو بھی اس دھماکے کا ذمہ دار ہوگا اسے سزا دی جائے گی۔
دوسری جانب ملک کے وزیر اقتصادیات راؤل نہیم نے خبردار کیا ہے کہ لبنان تنہا بیروت کی تعمیر نو نہیں کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی تاریخ کے سب سے مشکل چیلنج کا مقابلہ کررہا ہے۔
راؤل نہیم نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ بیروت دھماکے سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے برطانیہ جیسے ممالک سے تباہی سے بچنے میں مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس وقت صورت حال انتہائی خراب ہے۔ دھماکے سے نہ صرف وسطی بیروت بلکہ 25 کلو میٹر کے دائرے میں بے حد نقصان ہوا ہے۔ ہمیں عملی طور پر خانہ جنگی کے بعد تعمیر نو جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔‘
'ہمارے پاس ابھی تک مکمل نقصان کا تخمینہ نہیں ہے تاہم یہ نقصان اربوں ڈالر میں ہو سکتا ہے۔ ہم اکیلے ایسا (تعمیر نو) کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اگر لبنان کو بین الاقوامی مدد نہیں ملتی ہے تو یہ تباہ کن ہوگا۔'
دھماکے کے بعد ہونے والے احتجاج کے بارے میں نہیم نے کہا کہ وہ مظاہرین سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن موجودہ حکومت محض چھ ماہ سے اقتدار میں ہے جو کرونا کی وبا اور اب اس دھماکے کے تناظر میں 30 سال کی بدانتظامی کو راتوں رات حل نہیں کر سکتی۔