'میں نے اپنا اعتماد سب سے پہلے اپنے ایک استاد کی وجہ سے کھویا۔ '
'میں لڑکوں کے سرکاری سکول میں میٹرک کی طالب علم تھی ۔میں بہت لائق سٹوڈنٹ تھی مگر میرے استاد جان بوجھ کر مجھے پیچھے والے بینچ پر بٹھاتے اور زیادہ سامنے نہیں آنے دیتے تھے جب کہ میری کوشش ہوتی تھی کہ میں ہر چیز میں حصہ لوں اور سوالوں کے جواب دوں اسی طرح ایک دن انہوں نے کوئی سوال پوچھا تو میں نے کھڑے ہو کر کہا سر میں بتاؤں تو جواب میں انہوں نے بولا ' اوئےزنخے جا پیچھے جا کر بیٹھ' میرے لیے ان کی یہ بات بہت تکلیف دہ تھی۔'
انڈپینڈنٹ اردو کو اپنا یہ قصہ مون نے سنایا جوڈائریکٹر پروگرام خواجہ سرا سوسائٹی ہیں۔
ہفتے کے روز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی [جی سی یو] لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر اصغر زیدی نے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے خواجہ سراؤں کے لیے مخصوص نشستوں کا اعلان کیا۔
ان مخصوص نشستوں کی اجازت وائس چانسلر کی سفارش پر اکیڈمک کونسل نے دی۔ یونیورسٹی میں موجود ہر شعبے میں خواجہ سراؤں کے لیے ایک سیٹ مختص کی گئی ہے جب کہ اس کے علاوہ اچھے نمبر حاصل کرنے والے خواجہ سرا اوپن میرٹ پر بھی داخلہ حاصل کر سکتے ہیں۔
جی سی یو کے وائس چانسلر کے خیال میں خواجہ سراؤں کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کا مقصد اس پسماندہ طبقے کی اعلی تعلیم تک رسائی کوممکن بنانا ہے تاکہ ٹرانسجینڈرز کو بطور وکیل، ڈاکٹرز، انجینئرز، بیوروکریٹس اور سیاستدان معاشرے میں قبول کیا جائے۔
جی سی یو میں پہلے ہی دیگر پسماندہ طبقوں کے لیے خصوصی نشستیں موجود تھیں جن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا، معذور افراد اور اقلیتیں بھی شامل ہیں۔
پروفیسر اصغر زیدی کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب یونیورسٹی میں خواجہ سراؤں کے لیے خصوصی نشستیں تشکیل دی گئی ہیں۔
مون کو جب ہم نے جی سی یونیورسٹی کے اس اقدام کے بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے بھی اور اب بھی ایساہے کہ بہت سے خواجہ سرا ایک مرد کی شناخت کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں خاص طور پر وہ جن کے شناختی کارڈ بطور مرد بنے ہوئے ہیں مگر کچھ خواجہ سرا ایسے بھی ہیں جو نئے شناختی کارڈ پر بطور خواجہ سرا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔'
مون نے بتایا کہ ان سمیت بہت سے خواجہ سرا ایسے ہیں جو اس وقت اچھی پوزیشنز پر ہیں اور انہوں نے اپنے تعلیمی دور میں ایک مرد کی شناخت کے ساتھ ہی تعلیم حاصل کی ۔
'ہم لوگ تو جیسے جیسے خود مختار ہوئے ویسے ویسے اپنی شناخت بتانا شروع کہ ہم مرد یا عورت خواجہ سرا ہیں۔ میں نے خود اے سی سی اے تک ایک لڑکے کے طور پر نجی کالج میں تعلیم حاصل کی مگر پھر میں نے اپنی شناخت کھول دی کہ میں ایک خواجہ سرا عورت ہوں۔ یہ 2013 کی بات ہے اور اس وقت بہت سے لوگوں نے تیسری صنف کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ گراس روٹ لیول پر تیسری صنف کے ہونے اور ان کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جائے۔'
مون کا کہنا ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے نجی تعلیمی اداروں سے مختلف ہیں کیونکہ وہاں ہر طرح کی ذہنیت کے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں جن کا تعلق مختلف شہروں، دیہاتوں یہاں تک کہ دیگر ملکوں سے بھی ہوتا ہے۔
اس میں پوائنٹ یہی ہے کہ آپ نے یہ تو کہہ دیا کہ ایک خواجہ سرا اپنی شناخت کے ساتھ یونورسٹی میں تعلیم حاصل کرے مگر کیا اس بات کی گارنٹی دی گئی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا؟ اور انہیں ہراساں نہیں کیا جائے گا؟
بات یہی ہے کہ جب تک معاشرے میں ان کے حوالے سے شعور اجاگر نہیں کریں گے جب تک آپ تعلیمی نصاب میں جینڈر سٹڈی کا مضمون شامل نہیں کریں گے، تب تک بات نہیں بنے گی۔'
مون کہتی ہیں کہ خواجہ سرا کمیونٹی میں ایک خوف ہے کہ اگر ان کی شناخت کسی کو معلوم ہو گئی تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟
پہلے تو اس خوف کو ختم کیا جائے تاکہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ بغیر کسی ڈر خوف کے یونیورسٹی میں جا کر تعلیم حاصل کر سکیں۔
'میں نے خود ایک عرصہ تک یہ خوف محسوس کیا تھا کہ کہ کسی کو معلوم نہ ہو جائے کہ میں ایک خواجہ سرا عورت ہوں۔'
مون کہتی ہیں کہ یونیورسٹی میں تو نشستیں مختص کر دیں گئیں مگر سکولوں کا کیا ہو گا؟ سکولوں میں جگہ ملے گی، وہاں سے خواجہ سرا پڑھیں گے تو آگے کالج و یونیورسٹی تک جائیں گے۔ یہ تبدیلی تو سکول کے لیول سے شروع کی جانی چاہیے۔
ان کے خیال میں 'بہت ضروری ہے کہ سکول لیول پر بچوں کو جینڈر سٹڈی کا مضمون متعارف کروایا جائے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ایک تیسری صنف بھی ہے اور جب وہ ان کے ساتھ سکولوں میں پڑھیں گے تو خود بخود تیسری صنف کو قبول کرنا ان کے لیے آسان ہو جائے گا۔ وہ عادی ہو جائیں گے اور اس طرح بچپن سے وہ خواجہ سراؤں کو معاشرے کا حصہ سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح اگر سکولوں کے لیول پر خواجہ سراؤں کو تعلیم کے مواقع بغیر کسی امتیاز کے فراہم کیے جانے لگیں تو ان کے والدین کو بھی یہ یقین ہوگا کہ ان کا بچہ تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں ایک فعال کرداد ادا کر سکے گا، نہ کہ وہ معاشرے کے رویے سے خوف کھا کر اس بچے سے منہ موڑ لیں اور اسے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیں۔'
مون کہتی ہیں کہ اس سب کے ساتھ اساتذہ کی تربیت کی بہت ضرورت ہے، 'جیسے میں نے اپنا واقعہ بتایا کہ میرے استاد نے اپنے ایک جملے سے میرا اعتماد کرچی کرچی کر دیا۔ اور اس اعتماد کو بحال کرنے میں مجھے ایک لمبا عرصہ لگا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کے رویوں پر بھی کام کیا جائے۔ جو قدم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی نے اٹھایا ہے وہ سرکاری سکولوں کو بھی اٹھانا چاہیے۔'
ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے بعد سے قومی شناختی کارڈ کے فارم پر جنس کا ایک تیسرا کالم شامل کیا گیا جس میں خواجہ سرا مرد/ خواجہ سرا عورت لکھا گیا ہے اور کوئی بھی خواجہ سرا اس پر اپنی جنس وہ لکھ سکتا ہے جو وہ محسوس کرتا ہے۔
اس کے بعد سے نجی تعلیمی اداروں کے داخلہ فارمز میں تو جنس کے خانے میں تیسرا کالم شامل کر دیا گیا ہے لیکن سرکاری سطح پر ایسا نہیں ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ 'یونیورسٹی میں چند ہی کوٹے ہیں جن میں یونیورسٹی ملازمین ، شہدا اور بلوچستان یا فاٹا کا کوٹہ ہے۔ لیکن خواجہ سراؤں کے لیے ایسا کوئی کوٹہ نہیں ہے۔ یونیورسٹی میں کتنے خواجہ سرا ہیں اس کے بارے میں کہنا مشکل ہے کیونکہ داخلہ فارم پر جنس کے خانے میں صرف مرد اور عورت ہی لکھا ہے۔ یونیورسٹی میں اوپن میرٹ پر داخلے ہوتے ہیں اور اس میں خواجہ سرا بھی آسکتے ہیں اس میں کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کبھی ان کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ '