خیبر پختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان ریلوے اور خیبر پختونخوا حکومت کے مشترکہ اقدام سے ایک نئے منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
اس کے تحت تاریخی طور پر چلنے والی سفاری ٹرین اور ایک نئی بس سروس کا اگلے ماہ یعنی ستمبرسے آغاز کیا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سفاری ٹرین پشاور تا اٹک اور پشاور تا تخت بھائی ریلوے سٹیشن، دو راستوں پر جائے گی۔ جب کہ سفاری بس سروس سیاحوں کو پشاور کے اندر مختلف تاریخی مقامات کی سیر کروائے گی۔
سیکرٹری برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ عابد مجید کا اس منصوبے کے حوالے سے کہنا ہے کہ سفاری ٹرین سفر کے دوران سیاح مختلف سٹیشنوں اور تاریخی مقامات پر وقفے میں دیگر تفریحی سرگرمیوں جیسے اونٹ کی سواری، کھیلوں اور روایتی کھانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس تفریحی سفر سے سیاحوں کو اس صوبے کی تاریخ اور تاریخی مقامات کے حوالے سے جاننے کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے کو معاشی فائدہ بھی ہوگا۔
اس منصوبے کا آئیڈیا دو سال قبل سابق وزیر سیاحت و کھیل عاطف خان نے دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان ریلوے اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین اس ٹریک کو دوبارہ بحال کرنے کا معاہدہ طے ہوا تھا۔
پشاور تا تخت بھائی سفاری ٹرین چلانا اہم خبر ہے۔
پشاور ریلوے سٹیشن کے ترجمان اور کمرشل آفیسر طاہر مسعود مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور سے اٹک خرد تک سفاری ٹرین پہلے بھی بحال تھی جو آخری بار کرونا وائرس کی وبا سے کچھ ہی ہفتے پہلے چلی تھی۔
'ہاں البتہ پشاور سے تخت بھائی ریلوے سٹیشن تک سفاری ٹرین چلانےکا تجربہ ایک طویل ترین عرصے بعد کیا جائے گا۔ سفاری ٹرین ایک انٹیک ٹرین ہے۔ جس کا پٹڑی پر چلنا اور اس کا نظارہ کرنا خود اپنے آپ میں ایک حسن رکھتا ہے۔ ایک سفاری ٹرین میں 200 سے زائد مسافر سوار ہو سکتے ہیں۔ یہ ٹرین تب ہی چلتی ہے جب سیاحوں کے گروپس ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔'سفاری ٹرین کے کرائے کے حوالے سے طاہر مسعود نے بتایا کہ فی الحال اس کے حوالے سے انہیں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے ۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ سفاری ٹرین کو زیادہ تر سیاحوں کے بڑے بڑے گروپ پورے دن کے لیے کرائے پر لیتے ہیں اور اس دوران مختلف مقامات اور سٹیشنوں پر وقفے وقفے کے لیے رکا جاتا ہے۔
تاریخی پس منظر
انگریز دور کی تعمیر کردہ پشاور سے تخت بھائی تک جانے والی ریلوے برانچ کا راستہ نوشہرہ سٹیشن سے ہو کر جاتا ہے۔ جس کا آخری سٹیشن درگئی میں بنا ہوا تھا۔
11 ریلوے سٹیشنوں پر مشتمل نوشہرہ درگئی ریلوے برانچ 1886 میں ہندوستان پر قابض انگریز حکومت نے بچھائی تھی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق، اس ریلوے لائن کا مقصد انگریزوں کی فارورڈ پالیسی کو آسان بنانا تھا۔ کیونکہ انگریز چترال پر قبضہ کرنے کے خواہاں تھے لہذا نوشہرہ سے درگئی تک ریلوے لائن کی ایک شاخ بچھا دی گئی جس کے ذریعے سامان خورد ونوش اور گولہ بارود پہنچانے کے علاوہ سپاہی باآسانی جنگی محاذ تک پہنچ سکتے تھے۔
بعد کے وقتوں میں یہی ریلوے لائن کئی ایک دیہاتی علاقوں کی آمد ورفت کا ذریعہ بھی بنی رہی جس کے ذریعے لوگ اپنا سامان اور مال مویشی کم قیمت پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا کرتے تھے۔
یہ شاخ 1992 تک مکمل طور پر بحال رہی جس کے بعد 2002 میں مبینہ کرپشن کے الزامات، ریلوے کے حوالے سے غفلت وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔
اس ریلوے لائن اور سٹیشنوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی مختلف خبروں کے مطابق تالہ لگے ان سٹیشنوں کا دستاویزی ریکارڈ بوسیدہ عمارتوں کی نذر ہوا، پٹڑیوں پر عوام نے قبضے جما لیے جب کہ ریلوے سٹیشن موسموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہوئے۔
عوامی رائے
سفاری ٹرین پشاور سے تخت بھائی تک دوبارہ بحال ہونے کو پشتونوں کا سینئر طبقہ ایک نہایت خوش آئند اقدام قرار دے رہا ہے تاہم وہ چند خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں جن میں ریلوے لائن کو عوام کے قبضے سے چھڑانے جیسا اہم مسئلہ بھی شامل ہے۔
مردان کے رہائشی 70 سالہ ایوب محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ وہ پر امید ہیں کہ سفاری ٹرین کے بعد یہ ریلوے لائن مکمل طور پر بحال ہو جائے گی تاہم انہوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت یہ ریلوے لائن ستمبر تک بحال نہیں کر سکے گی۔
ان کے مطابق نہ صرف اس پٹڑی پر جگہ جگہ لوگوں نے قبضے کیے ہوئے ہیں بلکہ کئی جگہوں پر یہ خستہ حالی کا بھی شکار ہے۔مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اگر تخت بھائی کا سٹیشن دوبارہ آباد ہو گیا تو اس سے آس پاس کی بہت سی دیہاتوں کا رابطہ جڑ کر انہیں سفری سہولت کے علاوہ معاشی فائدہ بھی ملے گا۔
سفاری بس سروس
خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پشاور میں سفاری بس سروس کا آغاز کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ بس سیاحوں کو پشاور کے اندر مختلف تفریحی اور تاریخی مقامات کی سیر کروائے گی۔ ان مقامات میں پشاور میوزیم، گور گھٹڑی، سیٹھی ہاؤس، گھنٹہ گھر، چوک یادگار اور دوسرے کئی مقامات شامل ہوں گے۔
کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ایک آفیشل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فی الحال خاص قسم کی بسوں کا انتظام نہیں ہوا ہے۔ البتہ ان کے پاس ورلڈ بینک کی عطیہ کردہ تین بسیں موجود ہیں جن کو اس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔