ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مغربی کھانے اب تمباکو نوشی اور ہائی بلڈ پریشر سے بھی زیادہ ہلاکتوں کا باعث بن رہے ہیں۔
مغربی کھانوں کے ذکر سے ہمارے دماغ میں اس کے اعلیٰ معیار اور غذائیت سے بھرپور ہونے کا تاثر ابھرتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
نئی تحقیق نے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ روایتی مغربی کھانوں میں نمک اور چکنائی کی زیادہ مقدار جبکہ فائبر اور پھلوں کی کمی اسے مضر صحت بنا دیتی ہے اور اس کے استعمال سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں تمباکو نوشی اور بلند فشارِخون کے باعث ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہیں۔
دنیا میں ہونے والی ہر پانچ اموات میں سے ایک کی وجہ ایسے کھانوں کا استعمال ہے جس سے دل کے نظام میں پیچیدگیاں، دیابیطس اور سرطان جیسے موذی امراض جنم لیتے ہیں۔
محققین نے دنیا کے 195 ممالک کے افراد کے کھانوں، انہیں لاحق بیماریوں اور اموات کی شرح کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد پتہ لگایا ہے کہ لوگوں میں کھانے کے انداز اور طرز زندگی ان کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ ان افراد کے کھانوں میں زیادہ گوشت اور فاسٹ فوڈ کا استعمال اور سبزی خوری میں کمی نمایاں تھی۔
صرف 2017 میں بد خوراکی سے مرنے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ تھی جو دنیا بھر میں ہونے والی کُل اموات کا 22 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں اسی عرصے کے دوران تمباکو نوشی اور بلند فشارِخون سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔
اس خوفناک صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ بد خوراکی سے ہونے والی نصف اموات کی وجہ کھانوں میں سوڈیم کی زیادتی اور ثابت اناج اور پھلوں کی کمی تھی۔ واضح رہے سوڈیم نمک کا اہم جزو ہے جو تقریباً تمام ہی کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔
کھانوں کے حوالے سے ہونے والی باقی نصف اموات کی وجہ سُرخ اور پروسیسڈ گوشت، مصنوعی مشروبات، میٹھائیوں، چکنائی اور دیگر غیر متوازن غذا کا استعال ہے جس سے دل کی بیماریاں، کینسر اور ٹائپ ٹو دیابیطس جیسے امراض میں مبتلا ہو کر لاکھوں افراد لقمہِ اجل بن جاتے ہیں۔
لینسٹ نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ بد خوراکی سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد معذوری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن سے وابسطہ سائنس دان ڈاکٹرآشکن افشن جو اس تحقیق کی سربراہی بھی کر رہے تھے، کا کہنا ہے کہ بد خوراکی کو بجا طور پر قاتل کہا جاسکتا ہے۔
’ہم وہی ہیں جو ہم کھاتے ہیں، خوراک رنگ و نسل، جنس، علاقے اور معاشی حیثیت میں تفریق کے بغیر لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔‘
ڈاکٹر افشن کے ساتھی تحقیق کار اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر والٹر ولیٹ کا ماننا ہے کہ ہمیں اپنی خوراک کو بہتر بنانے کے لیے حیوانی پروٹین کو نباتاتی پروٹین سے تبدیل کرنا پڑے گا جس سے امراضِ قلب سے بچا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں ایک اور گروپ ’ایٹ کمیشن‘ نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ مغربی ملکوں میں صحت کی حفاظت کے لیے گوشت کی کھپت میں 80 فی صد کمی کی ضرورت ہے جہاں برگر، ساسیجز اور سرخ گوشت سے بنائی گئی دیگر خوراک کا استعمال عام ہے۔
انہوں نے کہا کہ سویا، پھلیوں اوردیگر نباتاتی پروٹین کے استعمال پر زور دیتے ہوئے ان غذاؤں سے انسانی صحت اور ہمارے سیارے، دونوں کو فائدہ ہوگا.
ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ کی ڈاکٹر اینا ڈیاس فونٹ نے کہا کہ یہ مطالعہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ لوگوں کی صحت کے حوالے سے خوراک کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے.
’ہمارے اپنی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بد خوراکی کی وجہ سے کینسر اور موٹاپے کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے، یہ کینسر کی 12 مختلف اقسام کے خطرے کو مزید بڑھا سکتی ہے.‘
’ہم حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ درست پالیسیوں کو لاگو کریں تاکہ لوگوں کو صحت مند خوراک میسر ہوں اور وہ بہتر زندگی گزار سکیں.‘