سندھ بھر میں نہم اور دہم جماعت کے امتحانات کا پہلا ہفتہ مکمل ہوا اور اگر وزیر تعلیم سندھ سردار علی شاہ کی مانیں تو سب اچھے کی رپورٹ ہے لیکن پہلے ہفتے میں ہی نقل کی ان گنت شکایات موصول ہوئیں۔
بوٹی مافیا نے اس سال بھی سر عام واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے طالب علموں کو حل شدہ پرچے فراہم کیے۔
انہی واٹس ایپ گروپوں کےکچھ سکرین شاٹس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ امتحانات سے ایک رات یا چند گھنٹے قبل ان گروپوں پر ناصرف پرچے آؤٹ ہوئے بلکہ امتحان میں آنے والے سوالات کے جوابات بھی باآسانی میسر تھے۔
ان واٹس ایپ گروپوں کے ارکان اور گروپ ایڈمن کے نمبروں کی جانچ سے معلوم ہوا کہ منظم نقل مافیا کے کارندوں کے علاوہ نویں اور دسویں جماعت کے بچے بھی ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بچوں کو اس حد تک آؤٹ پرچوں تک رسائی میٹرک بورڈ انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ طالب علم انتظامیہ کی ناک کے نیچے نقل کرتے رہے اور چیئرمین بورڈ کو خبر تک نہ ہوئی۔ میڈیا پر کھلے عام نقل کی مسلسل خبروں کے بعد انہوں نے محض ایف آئی اے سے رابطہ کرنے کا اعلان کر دیا۔
وزیر تعلیم سندھ نے کئی امتحانی مراکزکے دورے کرتے ہوئے بچوں کو خود نقل کرتے پکڑا لیکن نقل کرانے والے مافیا کا تاحال کچھ نہیں ہو سکا۔
امتحانات شروع ہونے سے قبل امتحانی مراکز پر دفعہ -144 نافذ کر دی گئی تھی۔ حیدرآباد میں امتحانات کی نگرانی کے لئے میٹرک بورڈ کی جانب سے 23 نگران ٹیمیں اور مانیٹرنگ سیل قائم تھے۔
تاہم طلبا نے مبینہ طور پر اساتذہ اور نگران ٹیموں کی مدد سے ناصرف کھلے عام موبائل فون استعمال کئے بلکہ پکڑے جانے پر اساتذہ پر الزام عائد کیے کہ وہ پوری کلاس سے دو سے تین ہزار روپے لے کرکے خود حل شدہ پرچے فراہم کرتے ہیں۔
خیرپور میں نقل کرانے کا ایک نیا طریقہ کار اپنایا گیا اور ایک سیٹ پر تین تین طلباء کو ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔
کراچی میں اس سال جنرل اور سائنس گروپ کے طلباء کے لیے 367 امتحانی مراکز قائم کئے گئے لیکن بد انتظامی کی وجہ سے کئی طلبہ پہلے دن اپنے امتحانی مراکز ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔
اکثر طلباء نے بتایا کہ سیٹ نمبر کے مطابق جب وہ مراکز پر پہنچے تو وہاں ان کا سیٹ نمبر موجود تھا اور نہ ہی کسی نے ان کی رہنمائی کی کیوں کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی میٹرک بورڈ کی جانب سے کسی قسم کے ہیلپ سینٹر قائم نہیں کئے گئے۔ طلباء کے والدین بھی اس حوالے سے شکایات کرتے نظر آئے۔
ان دنوں کراچی میں سخت موس میں جہاں طلباء دھول مٹی اور گرمی میں اپنے مراکز ڈھونڈتے رہے وہیں دوسری جانب مراکز کے اندر بھی انہیں پنکھے نہ ہونے اور لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا رہا۔
ایک طالبہ نے گورنمنٹ کمپری ہینسوہائی سکول کی حالت زار کے حوالے سے بتایا کہ وہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کھڑکیاں کھولنے پر مجبور تھیں جس کی وجہ سے امتحان کے دوران پرندے بھی کلاس کے اندر آجاتے تھے۔