رومینہ قتل کیس: 'تیرہ سالہ بچی کا سر قلم کرنے کی بس اتنی سزا؟'

ایران میں 'غیرت' کے نام پر والد کے ہاتھوں قتل ہونے والی رومینہ اشرفی کیس میں نو برس قید کی سزا پر والدہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ 'سزا فرد کے جرم کے مطابق ہونی چاہیے۔ درانتی کے ساتھ تیرہ سالہ بچی کا سر قلم کرنا تشدد کی انتہائی شکل ہے اور اس جرم کی بس یہ سزا؟'

(رومینہ اشرفی کے والد عدالت میں۔ تصویر: بابک جدی، میزان نیوز)

تیرہ سالہ ایرنی بچی رومینہ اشرفی، جنہیں ان کے والد نے 'غیرت' کے نام پر سوتے میں درانتی کے وار سے قتل کر دیا تھا، کے کیس کا فیصلہ آنے کے بعد رومینہ کی والدہ رعنا دشتی نے کہا ہے کہ ان کے شوہر ایک خطرناک شخص ہیں اور اعلان کیا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی۔

انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میرا دوسرا بچہ اور میں، نو سال بعد ان کی رہائی کی صورت میں شدید غیر محفوظ ہوں گے۔'

انہوں نے قصاص قوانین کے تحت اس کیس کا فیصلہ سنائے جانے کا مطالبہ کیا۔

رعنا دشتی کے وکیل، ابراہیم نیکدل مقدم نے اخباری نمائندوں کو بتایا: 'ہمیں اندازہ تھا کہ ایسا ہی کوئی فیصلہ سنایا جائے گا۔ کیونکہ 1992 میں منظور شدہ تعزیراتی ضابطے کے مطابق، کسی بچے کا قتل کرنے والے سرپرست کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور دیت کی ادائیگی ہے۔ '

ان کا کہنا تھا: 'جج اس جرم کی خطرناک نوعیت پہ غور کرتے ہوئے رومینہ کے والد کے لیے کم از کم جلاوطنی یا نظر بندی پر بھی غور کر سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور ہم اس پر اپیل کریں گے کیونکہ یہ شخص واقعتاً خطرناک ہے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'سزا فرد کے جرم کے مطابق ہونی چاہیے۔ درانتی کے ساتھ تیرہ سالہ بچی کا سر قلم کرنا تشدد کی انتہائی شکل ہے اور اس جرم کی بس یہ سزا؟'

قانون میں ایسے معاملات کی روک تھام کے لیے قرار واقعی سزا ہونی چاہیے اور ایسے مقدمات میں صرف قید اور دیت کی سزا کافی نہیں ہونا چاہیے۔'

رومینہ کے والد کے بارے میں ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا قتل کرنے سے قبل ممکنہ سزا کی چھان بین کر چکے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ایرانی فقہی قوانین کے تحت اپنی اولاد کو قتل کرنے والے باپ کی سزا قصاص نہیں ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیکدل مقدم کا مزید کہنا تھا: 'بدقسمتی سے اس گھرانے کے ایک جاننے والے ماہر قانون نے بھی قبل از جرم رومینہ کے والد کو ان کے تمام سوالات کا جواب دیا اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے پیچھے ان کے ارادے کیا ہو سکتے ہیں۔ '

'اس کیس میں ایک دلیل یہ دی گئی کہ رومینہ کے والد کو ان کے ایک رشتہ دار نے مشتعل کیا تھا۔ لیکن اسی کیس میں یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ رومینہ کے والد نے مذکورہ سہولت کار ماہر قانون کو اسی شخص کے فون سے کال کر کے بلایا تھا جس نے انہیں 'مشتعل' کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر آپ رومینہ کو قتل نہیں کرتے ہیں تو میں کروں گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب ملے ہوئے تھے اور رومینہ کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے۔'

رومینہ اشرفی کی والدہ کے وکیل نے مزید کہا: 'رومینہ کے والد بغیر کچھ ہوئے پوچھتے ہیں کہ اگر کسی والد نے اپنے بچے کو مار ڈالا تو کیا قانونی مضمرات ہو سکتے ہیں اور جواب میں قانونی سزا کی وضاحت مل جاتی ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام ممکنات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ منصوبہ بنا رہے تھے۔ لہذا ان کی لاعلمی یا اشتعال دلائے جانے کا دعویٰ باطل ہے۔'

قتل سے پہلے رومینہ کو شادی کے لیے اپنے ساتھ  لے جانے والے بہمن خاوری کی سزا کے بارے میں ان کا کہنا تھا: 'بہمن  نے رومینہ کو گیارہ سال کی عمر سے ہی دھوکہ دیا تھا، انہیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ رومینہ ابھی نوبالغ ہیں۔'

جس تصویر کے دکھائے جانے پر رومینہ کے والد نے اشتعال میں آنے کا دعویٰ کیا تھا، اس کے بارے میں رومینہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر یہ تصویر بہمن کے والد نے رومینہ کو بھیجی ہوتی تو، بہمن خاوری کے والد اشتعال انگیزی کے مجرم ثابت ہو سکتے تھے، کیس کا رخ بدل سکتا تھا لیکن یہ تصویر رومینہ کے چچا نے رومینہ کے والد کو دکھائی کیونکہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال خود نہیں جانتے تھے۔ لہذا رومینہ کے والد کو یقینی طور پر ان کے چچا نے اشتعال دلایا تھا۔'

نیکدل مقدم کا کہنا تھا کہ رومینہ کے والد کی ذہنی صحت دیکھتے ہوئے ان کے دوسرے بچے کی تحویل کے لیے ہم عدالتی کوشش کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ رومینہ کی والدہ کو ہی دی جائے گی۔

قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ اگر والد کسی وجہ سے موجود نہیں یا وہ اس قابل نہیں کہ بچے کی پرورش کر سکے تو بچے کی تحویل کا اولین حق ماں کا ہی ہو گا۔ والد کا خاندان اس سلسلے میں کیا گیا دعویٰ نہیں جیت سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس کیس میں تحویل کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا لیکن جب بھی قانونی بات کی جائے گی رومینہ کے والد کی ذہنی حالت دیکھتے ہوئے رومینہ کے بھائی کی تحویل کا حق والدہ رعنا دشتی ہی کے پاس ہو گا۔

رومینہ کے والد نے وکیل نیکدل مقدم کو عدالت میں انتقامی کارروائی کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ اس حوالے سے مقدم کا کہنا تھا: 'یہ پہلا موقع نہیں جب مجھے دھمکی دی گئی ہو یہ ہمارے کام کا حصہ ہے۔ تاہم ، اس دھمکی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔'

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق ایرانی قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو ریاست مخالف بیان کی پاداش میں پندرہ یا سولہ برس کی قید سنائی جاتی ہے اور دوسری جانب ایک تیرہ سالہ بچی کے قتل پر نو برس قید کی سزا، یہ فیصلہ ایرانی فقہی قانون کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا