لبنان کے دارالحکومت میں تباہی کا باعث بننے والے خوفناک دھماکے کے ایک ماہ بعد ریسکیو کارکنوں نے بیروت میں ملبے تلے دبے ممکنہ طور پر زندہ بچ جانے والے ایک فرد کی تلاش کا کام روک دیا ہے۔
جمعرات کی سہ پہر جمائمز کے علاقے میں تباہ شدہ گھر میں ایک آلے کی مدد سے کسی زندہ انسان کے دل کی کمزور دھڑکن کا سراغ لگایا گیا۔
چلی کی ریسکیو اور امدادی رضاکار ٹیم سے تعلق رکھنے والے کھوجی کتے نے بھی تلاش میں مدد کی۔
تھرمل امیجنگ سے بھی ملبے تلے دبے بظاہر دو انسانی جسموں کی نشاندہی ہوئی جن میں سے ایک چھوٹا ہے اور بازو اور ٹانگیں جوڑے پڑا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ریسکیو سرگرمیوں میں مصروف امدادی کارکنوں نے کہا کہ وہ زیادہ امیدیں نہیں لگانا چاہتے ہیں۔ تاہم کسی کی لاش یا زندہ شخص کے ملنے کے 'ایک فیصد امکان' کی صورت میں بھی انہوں نے تلاش کا کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
چیریٹی تبظیم ’لیو لوو بیروت‘ سے وابستہ ایڈورڈ بٹار نے کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ اندر ایک چھوٹا سا انسان موجود ہے، وہ بچہ ہوسکتا ہے جو ٹانگیں سینے سے لگائے پڑا ہو۔ ہم صرف اس بات کی یقین دہانی کر رہے ہیں کہ وہاں کیا ہے اور یہ معلوم کرنے کے لیے تمام اقدامات لے رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا: ’وہ پہلی منزل پر ہے لیکن دوسری اور تیسری منزل اس کے اوپر گر گئی ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ ہمیں عوامی تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے۔ کسی بھی لمحے عمارت گر سکتی ہے۔ لہذا ہمیں بھاری سامان کے بغیر ایک چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ٹیمیں ایک گھنٹے میں محض چند سینٹی میٹر آگے بڑھنے میں کامیاب ہو رہی ہیں کیونکہ وہ غیر مستحکم ڈھانچے، چٹانوں اورکئی منزلوں کے ملبے کے نیچے محتاط انداز میں کام کر رہے ہیں۔
جمعرات کی شب امدادی کام کو اس وقت روکنا پڑا جب گرنے والی عمارت کی ایک دیوار میں تھرتھراہٹ شروع ہو گئی۔
بالآخر آدھی رات سے قبل فوج نے صبح تک کے لیے اس تمام کارروائی کو روک دیا جس پر وہاں پر موجود ہجوم نے غصے کا اظہار کیا کیوں کہ ان کے مطابق وہاں کوئی شخص زندہ ہوسکتا ہے۔
لبنانی فائر اینڈ ریسکیو ٹیم کے سربراہ میشل المرر نے کہا کہ کرینوں کے بغیر آگے بڑھنا بہت خطرناک ہے جو ان کے پاس نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہمیں کسی کو زندہ تلاش کرنے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ وہ کوما میں ہو سکتے ہیں۔ لیکن تاحال تلاش کا کام جاری رکھنا محفوظ نہیں ہے۔‘
4 اگست کے دھماکے کے ایک ماہ بعد بچ جانے والے افراد کی تلاش کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ اس خوفناک دھماکے میں 191 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
کچھ افراد نے قیاس آرائی کی کہ امدادی کارکنوں نے کسی جانور کا کھوج لگایا ہو گا لیکن چلی کے ایک رضاکار نے بتایا کہ اس آلے نے کسی جانور کی نہیں بلکہ انسان کے سانس لینے اور دل کی دھڑکن کی نشاندہی کی ہے۔
یہ دھماکا اب تک ریکارڈ کیے جانے والے سب سے بڑے غیر جوہری دھماکوں میں سے ایک ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بیروت کی بندرگاہ پر ہزاروں ٹن ناقص ذخیرہ شدہ امونیم نائٹریٹ میں لگنے والی آگ اس دھماکے کی وجہ ہو سکتی ہے۔
دھماکے نے شہر کے دسیوں ہزار گھروں کو نقصان پہنچایا اور اس سے ملک کا اربوں ڈالر کی مالیت کا نقصان ہوا۔ یہ اتنا شدید دھماکہ تھا کہ اس کے مرکز سے 18 میل دور تک کھڑکیاں لرز کر رہ گئی تھیں۔
ملک میں اس وقت مظاہرے پھوٹ پڑے جب یہ بات سامنے آئی کہ بندرگاہ کے حکام، سکیورٹی فورسز، صدر اور وزیر اعظم سمیت حکام کو بندرگاہ پر موجود دھماکہ خیز مواد کے خطرناک ذخیرے کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا گیا۔
اس تباہی اور ملک میں جاری بے مثال مالی بحران کے معاملے پر عوامی دباؤ کے باعث پوری کابینہ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جمعرات کو مزید خدشات نے اس وقت جنم لیا جب لبنانی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے بندرگاہ کے داخلی راستے پر امونیم نائٹریٹ کا ایک اضافی ذخیرہ دریافت کیا ہے۔
فوج کے ماہرین نے بتایا کہ خطرناک کیمیکل کا 4.35 ٹن ذخیرہ چار کنٹینرز میں موجود ہے تاہم اس کی مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
فوج نے کہا کہ اس کے ماہرین اس مواد سے نمٹ رہے ہیں۔
تلاش اور ریسکیو آپریشن میں مدد کے لیے کام کرنے والے فرانسیسی اور اطالوی کیمیائی ماہرین نے بندرگاہ پر 20 سے زیادہ کنٹینرز کی نشاندہی کی جن میں خطرناک کیمیکل تھے۔
فرانسیسی ماہرین کے ساتھ ساتھ ایف بی آئی نے بھی لبنانی حکام کی درخواست پر دھماکے کی تحقیقات میں حصہ لیا ہے۔
اس ہفتے غیر معروف سفارتکار مصطفٰی ادیب کو ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے نیا وزیر اعظم منتخب کیا۔ انہوں نے بڑی اصلاحات اور دو ہفتوں میں نئی کابینہ تشکیل دینے کا عزم کیا ہے۔
دھماکے سے تباہ شدہ شہر کا دورہ کرنے والے واحد عالمی رہنما فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا ہے کہ لبنان کو غیر ملکی امداد کی فراہمی سیاسی اور مالی نظام میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں سے جڑی ہیں۔
© The Independent