سلیم الدین معمول کے مطابق منگل کی شام دفتر سے واپسی پر اپنے فلیٹ کی بالکونی میں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ اس روز ان کی بیگم صفیہ بھی کچھ دیر تک ان کے ساتھ بالکونی میں بیٹھی تھیں اور دونوں ایک دوسرے کو پورے دن کی مصروفیات کا حال احوال سنا رہے تھے۔
صفیہ کو اچانک یاد آیا کہ انہوں نے چولہے پر کچھ رکھا ہے،وہ فوراً اٹھ کر کچن کی جانب گئیں۔ اگلے ہی لمحے سلیم نے اپنا کپ اٹھایا ہی تھا کہ اچانک انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ایک ہیبت ناک زلزلہ آرہا ہے جس کے بعد پیلے رنگ کا گہرا دھواں ان کی بالکونی سے گھر میں داخل ہونا شروع ہوگیا۔ سلیم کے ہاتھ سے کپ گر کر ٹوٹ گیا ، وہ گرتے پڑتے اپنے بیوی اور بچوں کو بچانے کے لیے گھر کے اندر بھاگے۔
منگل چار اگست کی سہ پہر لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک خوف ناک دھماکہ ہوا جس نے ناصرف پورے شہر کو بلکہ اپنی دل دہلا دینے والی وڈیوز اور تصاویر سے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
دھماکہ بندرگاہ کے قریب ہوا، جو دھماکے کے نتیجے میں پوری طرح تباہ ہو گئی۔ اس واقعے میں اب تک 135 افراد کی ہلاکت اور پانچ ہزار سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
لبنانی وزیر داخلہ محمد فہمی کا کہنا ہے کہ دھماکے کی وجہ بیروت کی بندرگاہ کے گودام میں چھ سال سے موجود ضبط شدہ ہزاروں ٹن امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ ہوسکتا ہے۔
اسی روز سلیم الدین کی طرح بیروت کے کئی شہری اس دھماکے سے متاثر ہوئے۔ ایک نجی کمپنی میں انجینیئر سلیم کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ پچھلے 21 سال سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیروت کے علاقے این ال مسریح میں مقیم ہیں۔ ان کی رہائش بیروت کے مشہور ریڈیسن ہوٹل کے قریب ایک عمارت کی دوسری منزل پر ہے۔
سلیم نے اپنی آنکھوں دیکھا حال انڈپینڈنٹ اردو کو کچھ یوں بتایا 'دھماکے کے وقت مجھے اچانک محسوس ہوا جیسےزلزلہ آرہا ہے۔ میری بالکونی میں لگے پودے بلڈنگ سے نیچے گرنا شروع ہوگئے۔ بالکونی میں لگا اے سی کا آؤٹر جو بالکل میرے بیٹھنے کی جگہ کے عین اوپر دیوار پر لگا ہوا تھا وہ زور سے ہلنا شروع ہوگیا۔ میرے گھر کی تمام کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ سارا فرنیچر جھٹکوں کے باعث زمین سے چار سے پانچ سینٹی میٹر ہوا میں اچھل کر زمین پر گر پڑا۔'
سلیم کے مطابق جھٹکوں کی وجہ سے ان کے لیے خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ،گہرے دھوئیں کے باعث ان کی آنکھوں میں مرچیں لگ رہی تھیں اور سانس لینا دشوار ہوگیا تھا۔ مگر اس سب کے باوجود وہ بالکونی سے گھر کے اندر داخل ہوئے تاکہ اپنے بیوی بچوں کو محفوظ کرسکیں۔ ان کی بیوی کی چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں مگر اس لمحے جھٹکوں کے باعث اپنا توازن برقرار نہ رکھ پانے کے باعث وہ خود کو لاچار محسوس کررہے تھے۔
سلیم نے بتایا کہ جھٹکے کم ہوتے ہی وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ فلیٹ سے باہر نکل کر سیڑھیوں پر آگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ لوگ چیخیں مارتے ہوئے تیزی سے سیڑھیوں سے اتر رہے ہیں۔
'اس وقت میری آنکھوں کے سامنے قیامت کا سا منظر تھا۔ لوگ لہولہان تھے، رو رہے تھے، مدد مانگ رہے تھے۔ میرے آس پاس تقریباً ہر کوئی اللہ سے مدد مانگ رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا اور کیوں ہورہا ہے۔'
سلیم کے مطابق کچھ وقت گزرا تو ان کے اور آس پاس کے لوگوں کی گھبراہٹ تھوڑی کم ہوئی۔ کچھ دیر بعد لوگ واپس اپنےگھروں کو جانا شروع ہوگئے۔ سلیم نے بتایا کہ گھر میں داخل ہوتے ہی انہوں نے صورت حال جاننے کے لیے ٹی کھولا توبندرگاہ پر دھماکے کی خبر نشر کی جارہی تھی۔
سلیم نے بتایا کہ ان کے ایک دوست ساجد ارشد علی، جن کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ بندرگاہ کے بالکل سامنے جمازی روڈ پر مقیم تھے، دھماکے کے باعث ناصرف ان کا گھر پوری طرح تباہ ہوگیا بلکہ ان کا ایک 15 سالہ بیٹا ذلباب ساجد ہلاک ہوگئے۔
سلیم کے مطابق انہوں نے ساجد کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو ان کا فون بند تھا۔ وہ فوری طور پر اپنے دوست کے گھر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ساجد کا گھر پوری طرح تباہ ہوچکا تھا۔
ساجد اور ان کے اہل خانہ ہسپتال میں تھے جہاں وہ اور ان کی اہلیہ حفصہ شدید زخمی ہونے کے باعث انتہائی نگہداشت وارڈ میں تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ہسپتال آنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوچکا ہے۔
دھماکے کی وجہ سے ساجد کے دونوں ہاتھ شدید متاثر ہوئے اور دونوں ہاتھوں کی کچھ انگلیاں کٹ گئی ہیں۔ ساجد کی دو سالہ بیٹی، اہلیہ اور ان کی والدہ کی ٹانگوں میں دھماکے سے کانچ ٹوٹنے کے باعث کئی زخم آئے ۔ ساجد ابھی تک ہسپتال میں ہیں البتہ ان کی بیوی کی حالت بہتر ہے مگر پوری فیملی اس حادثے کے بعد شدید صدمے میں ہے۔
دھماکے کے بعد وہاں مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے ہم نے بیروت میں پاکستان کی ایمبسی کے کونسل جنرل نجیب درانی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت لبنان میں تقریباً ایک ہزار پاکستانی مقیم ہیں اور دھماکے میں صرف ایک پاکستانی فیملی شدید متاثر ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا 'دھماکے میں شدید متاثر ہونے والی فیملی کی اطلاع ملی تو ہم فوراً ہسپتال پہنچے جہاں ہم نے سب سے پہلے ہلاک ہونے والےبچے کی شناخت کی کوشش کی۔ اب زخمی افراد کی حالت پہلے سے بہتر ہے مگر بیٹے کی ہلاکت کے باعث ان کا کافی نقصان ہوا ہے۔ اس لیے ہم نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ جہاں بھی ان کے بیٹے کی تدفین ہوگی ہم ان کی بھرپور مدد کریں گے۔'
انہوں نے بیروت میں مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے بتایا کہ وہاں تقریباً 500 کے قریب پاکستانی مقیم ہیں، جوعام طور پر بندرگاہ کے قریب نہیں رہتے، صرف ایک ہی پاکستانی فیملی وہاں مقیم تھی۔
بیروت میں ایک بھی پاکستانی طلب علم نہیں ، کچھ پاکستانی بیروت میں اقوام متحدہ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بلیو کالر ورکرز ہیں اور کچھ پاکستانی ڈاکٹر یا بینکر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کل ایک بجے کے قریب پاکستان سے ایک سی 130 جہاز امدادی سامان لے کر بیروت آئے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ ابھی تک وزیر اعظم عمران خان کی لبنان کے نئے وزیر اعظم حسن دیاب سے بات چیت نہیں ہوئی لیکن امید ہے جلد دونوں رہنماؤں میں رابطہ ہو گا۔