اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے پچھلے ہفتے ایک اچٹتی نظر چھپے ہوئے اشتہارات پر پڑی تو سامنے ایک ناقابل یقین حد تک وعدوں کی طویل فہرست نظر آئی۔
’کمزور جسم کو فوری طاقتور بنائیں۔ پرانا دمہ، جوڑ درد یا الرجی خارش جھٹ سے دور۔ کمزور جسم شرطیہ موٹا ہوگا۔ شوگر سے مکمل چھٹکارہ پائیں۔ بغیر آپریشن کے بواسیر کا آزمودہ علاج۔ صرف چار دن میں پھولا پیٹ ختم ہو جائے گا۔ اب قد بڑھے گا دنیا دیکھے گی۔ جاپانی مشین سے چہرے کے بال ختم۔ نورانی انگوٹھی۔‘
اس فہرست کے برابر میں پڑھی لکھی لڑکیوں کے عنوان کے نیچے درجنوں ’قبول صورت‘ اور ’امیر‘ لڑکیوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئیں تھیں۔ پڑھنے والوں کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ ان کی زندگی میں صرف انہی کی کمی ہے۔ جب یہ رشتے جڑ جائیں گے تو دنیا جنت میں تبدیل ہو جائے گی۔
ان اشتہارات سے نہ تو اشتہار دینے والا اور نہ چھاپنے والا مستفید ہوتا ہے۔ وہ صرف اپنا دھندہ کرتے ہیں۔ مال بٹور کر ان لوگوں پر ہنستے ہیں جو اس تشہیر سے متاثر ہو کر لبھ جاتے ہیں۔
مجھے اخبار کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے عجیب محسوس نہیں ہوا۔ پچھلے تین چار سالوں سے ان اخبارات میں سیاسی خبروں کی شہہ سرخیوں کے نیچے کچھ اسی قسم کا مواد شائع ہو رہا ہے۔ ’پاکستان ٹھیک ہو رہا ہے۔ ہماری سمت درست ہے۔ ریاست مدینہ معرض وجود میں آ چکی ہے۔ پرانی سیاست جڑ سے اکھاڑ دی ہے۔ احتساب سے ملک شفاف ہو گیا ہے۔ نوکریاں بس ملنے والی ہیں۔ کاروبار بس چمکنے والا ہے۔ ہمارے پاس کار آمد صلاحیتوں والے ان گنت لوگ ہیں۔ وقتی مشکل کٹ گئی ہے۔ کراچی صاف ہو جائے گا۔ دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ کسان اور مزدور کا بول بالا ہو گا۔ دولت مند مافیا شکست کھائے گا۔ ہر چیز ہو گی لش پش دینا کرے گی عش عش۔‘
فضول اشتہارات کی فہرست کی طرح ان سیاسی دعووں کو کرنے اور چھاپنے والے ان پر بھی یقین نہیں کرتے۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ جو برتن عوام کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اس کا اندر خالی اور پیندے میں سوراخ ہے۔ لیکن پھر بھی اشتہار بازی سے باز نہیں آتے۔ دو نمبر نسخے بیچنے والوں کی طرح ان کا دھندہ بھی دو نمبر وعدوں کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کا مقصد بس عوام کو لبھانا ہے اور اس کے ساتھ اپنے خاندان کے معاشی تحفظ کا ایسا بندوبست کرنا کہ ان کا تسلط کئی نسلوں تک برقرار رہے۔
لیکن دونوں فہرستوں میں مجھے پہلے والی فہرست زیادہ دیانت دار محسوس ہوتی ہے۔ اس پر کم از کم اشتہار کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ چند سطروں میں لوگوں کے مسائل اور اپنی طرف سے حل تجویز کر کے تشہیر ختم ہو جاتی ہے۔ حاشیے کے اندر رہتے ہیں۔ یہ حاشیے آرائی سے پاک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں سے کوئی یہ دعوی نہیں کرتا کہ وہ یہ سب کام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کر رہے ہیں جس سے خدا بھی خوش ہو گا اور مخلوق خدا بھی دعا دے گی۔
نہ ہی یہ اصرار کرتے ہیں کہ ان کی طرف سے لمبی لمبی چھوڑنا ملکی مفادات کے تحفظ کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ اشتہارات کسی بین الاقوامی سازش کا ذکر کر کے گندا مال اور برا دھندہ مارکیٹ نہیں کرتے۔ نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ اگر افاقہ نہ ہوا تو اس کا ذمہ دار بھارت یا امریکہ ہوگا۔ کوئی اپنے مال کی خرابی کا دوش اپنے مخالف کو نہیں دیتا۔ ان میں سے کسی اشتہار میں صارف کو نہ گھبرانے کی تلقین نہیں کی جاتی اور نہ ہی یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ غلط علاج سے اگر وہ مرنے کے قریب ہو گیا تو اس میں پریشان ہونے کی بات نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہوتا رہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے یقین ہے کہ اشتہار دینے والی کمپنیاں یا افراد اپنے کرتوتوں پر سے پردہ اٹھانے والوں کو گھروں، محلوں یا سڑکوں سے اٹھا کر غائب نہیں کر دیتے ہوں گے۔ ان میں اتنی صداقت یا شرم موجود ہے کہ تمام تر اشتہار بازی کے باوجود یہ مان لیں کہ اگر ان کے نسخہ جات اتنے موثر ہوتے جتنے کہ چند سطروں میں بیان کیے گئے ہیں تو وہ سستے اخباروں کے صفحات پر ان کو نمودار کیے بغیر دنیا بھر میں پہنچانے جا رہے ہوتے۔ اشتہار چھپوانے والے خود کو پاک اور اپنے ہی جیسے دوسروں کو کفار سے تشبیہ نہیں دیتے۔ ان کو اپنا بھی پتہ ہوتا ہے اور دوسروں کا بھی۔
اس کے برعکس سیاسی اشتہارات کے متن گہرے فلسفے میں ڈبو کر چھاپے جاتے ہیں۔ ان پر جمہوریت، امانت، دیانت، قابلیت، بہادری، ایمانداری، اخلاص کے ٹھپے لگا کر ذرائع ابلاغ کے درباریوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو متانت کے تمام ظاہری لوازمات کو پورا کرتے ہوئے ان کی ملک کے مفاد میں نشر و اشاعت کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس کاروبار کے پیچھے اپنے زر، زن اور زمین کے مفادات کا تحفظ مقصود ہے۔ ہدف صرف اتنا سا ہے کہ نوکری اور طاقت ہاتھ سے نہ جائے اور بس۔
ان سیاسی اشتہاروں کو اس تواتر سے پھیلایا گیا ہے کہ ان کے پڑھنے والے اب شاید رشتوں، جڑی بوٹیوں، دوائیوں اور بیماریوں کے تدارک سے متعلق چھپنے والے مواد پر زیادہ یقین رکھتے ہوں۔ ان کو کم از کم یہ پتہ ہے کہ اشتہارات کی مد میں دیے گئے نمبرز ملانے پر دوسری طرف سے کوئی فون ضرور اٹھا لے گا۔ حکیموں کے نام نہاد کلینک بےشک ڈیڑھ کمروں پر محدود ہوں، موجود ضرور ہوتےہیں۔ قد بڑا کرنے والی دوائیاں بھلے گردوں کے مرض کو جنم دیدیں مگر منگوانے پر گھر پر مل جاتی ہیں۔
سیاسی اشتہارات کے ذریعے جس مال کی داستان سنائی جاتی ہے اس کا کوئی نقلی ثبوت بھی وجود نہیں رکھتا۔ نہ نوکریاں ہیں نہ گھر۔ نہ کھانے پینے کی اشیا سستی ملتی ہیں نہ دوائیاں۔ نہ مافیا پکڑا گیا نہ اس نے ناک کے نیچے بیٹھ کر مال بنانا چھوڑا۔ نہ ملک محفوظ ہوا نہ دہشت گردی ختم ہوئی۔ تمام تر اشتہار بازی کے باوجود کچھ بھی نہ ملا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ قارعین کو اپنی ہر صبح کا آغاز اخبارات کے اشتہارات کو پڑھ کر کرنا چاہیے۔ یہاں پر جو چھپتا ہے وہ با اثر نہ ہو لیکن موجود ضرور ہے۔ صفحہ اول اور آخر کی داستانیں تو خیالی پلاؤ ہیں جو ہمیں 72سال سے چاپلوس باورچیوں کے ذریعے پکا پکا کر کھلایا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ تو اس پلاؤ کا ایک نہ ختم ہونے والا لنگر کھلا ہوا ہے۔ جس کی خالی دیگوں میں کھڑکنے والے کڑچھوں نے اپنے شور سے ذہنوں کو ماؤف کر دیا ہے۔