صوبہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو ضلع لاڑکانہ کے شہر رتوڈیرو کا دورہ کرتے ہوئے وہاں ایچ آئی وی مریضوں کو تاحیات مفت علاج فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم، ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے والدین بلاول بھٹو زرداری کے وعدے پر مطمئن نہیں اور اسے محض سیاسی بیان قرار دیتے ہیں۔
نواز علی بروہی نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ پہلی بار اپنے بیٹے کے ٹیسٹ کے لیے سرکاری ہسپتال گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کو ایچ آئی وی نہیں مگر بعد میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال کے ٹیسٹ میں ان کے بیٹے میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوگئی۔
انہوں نے بتایا: 'جب میں علاج کے لیے لاڑکانہ کے ہسپتال گیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ نجی ہسپتال کے ٹیسٹ کو نہیں مانتے جب تک خود ٹیسٹ کرکے تصدیق نہ کرلیں۔ اس پر میں نے انہیں ٹیسٹ کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے ٹیسٹ کے لیے پانچ ہزار روپے مانگے اور کہا کہ اگر میں پیسے نہیں دے سکتا تو مفت ٹیسٹ کے لیے اگلے ہفتے تک انتظار کرنا ہوگا۔‘
نواز علی کے مطابق ہفتے بعد جب ٹیسٹ ہوا تو ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوگئی، جس کے بعد انہیں علاج کے لیے اِدھر، اُدھر بھیجا جاتا رہا مگر علاج پھر بھی شروع نہیں کیا گیا۔
نواز نے سوال کیا کہ اس صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری کے اعلان پر عمل کیسے ممکن ہے؟
ہفتے کو بلاول نے رتو ڈیرومیں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ لاڑکانہ اور رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کی وبا نہیں ہے اور یہ کہ ایچ آئی وی کا علاج ہو سکتا ہے۔
انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو انڈومنٹ فنڈ بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیماری کی زد میں آنے والوں کوعلاج کی سہولت پہنچانی ہوگی تاکہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
ایچ آئی وی کے ایک اور مریض بچے ساگر ویسر کے والد ایاز علی نے کہا کہ وہ صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ بلاول بھٹو کے اعلان پر عمل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا: 'بلاول بھٹو صوبے میں حکمران پارٹی کے چیئرمین ہیں اور جب انہوں نے اعلان کیا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے، اگرمفت علاج ملا بھی تو کراچی سے ملے گا اور ہر بار وہاں جانا ممکن نہیں ہوگا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر عمران عاربانی رتوڈیرو میں ایک نجی ہسپتال چلاتے ہیں۔ ایچ آئی وی کی حالیہ وبا کا پہلا کیس ان ہی کے کلینک پر رپورٹ ہوا اور اب تک ان کے کلینک پر 100 سے زائد کیسز ایچ آئی وی پازیٹیو رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹرعاربانی نے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے ایچ آئی وی کیسز کی اصل تعداد چھپا رہی ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ کئی بچوں کے رتوڈیرو ہسپتال میں ٹیسٹ کے بعد لکھ دیا گیا کہ وہ ایچ آئی وی سے متاثر نہیں جب کہ کراچی کے آغا خان ہسپتال سے ٹیسٹ کروانے پر ان میں ایچ آئی وی تشخیص ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا: 'یہ ایک خطرناک عمل ہے، اس مرض میں مبتلا معصوم بچوں کو لکھ کر دے دیا جاتا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں، اس سے بچے بغیر علاج ایڈز کے مریض بن کر فوت ہوجائیں گے۔ یہ عمل تکلیف سے نجات کے لیے قتل یا انگریزی میں مرسی کلنگ ہے جو ایک گھناؤنا عمل ہے۔'
انہوں نے زندگی بھرعلاج مہیا کرنے کے اعلان پر مسکراتے ہوئے کہا: ’یہ لوگ (سندھ حکومت) سکریننگ کے عمل کے دوران ہی تھک چکے ہیں اور اعلان زندگی بھر علاج مہیا کرنے کا کرتے ہیں جو ممکن نہیں۔‘
انہوں نے بتایا: 'صرف میرے کلینک پر 100 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ سندھ حکومت کا عملہ 600 کے قریب کیس رپورٹ کر چکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیس چھپا رہے ہیں۔‘
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے انچارج ڈاکٹر سکندرعلی میمن نے رابطہ کرنے پر اعتراف کیا کہ کچھ مریضوں کے ٹیسٹ کے نتائج غلط آسکتے ہیں جو ایک انسانی غلطی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے پاس ایسے مریض ہیں تو انہیں ہمارے پاس بھیجا جائے، ہم دوبارہ چیک کریں گے۔
ڈاکٹر سکندر نے بتایا کہ اب تک رتوڈیرو میں 17 ہزارلوگوں کی سکریننگ کی جاچکی ہے، جن میں سے 650 سے زائد لوگوں میں ایچ آئے وی تصدیق ہوئی۔
ایچ آئی وی مریضوں کا علاج دیر سے ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی کی خواہش پرعلاج شروع نہیں کیا جاسکتا۔ ’جب کسی فرد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوتی ہے تو کئی ٹیسٹ ہوتے ہیں بعد میں ان کو رجسٹر کرکے علاج شروع کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے تصدیق کی کہ اب تک ظاہر ہونے والے سبھی مریضوں کا علاج شروع نہیں ہوسکا۔
بلاول بھٹو کے مفت علاج کے اعلان کے بعد مریضوں کو دوائیاں کہاں سے ملیں گی؟ اس سوال پر سکندر علی نے کہا: ’ایچ آئی وی اور ایڈز کے علاج کے لیے کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نواب شاہ اور سکھر میں پانچ مراکز ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اگلے مرحلے میں ضلعی سطح پر بھی دوائیاں دی جائیں۔
ان کا کہنا تھا: 'ہمیں ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اب ان کو باقاعدگی سے علاج کروانا ہوگا۔ علاج کے دوران دوائی کا ناغہ مرض کودوسرے مرحلے میں لے جائے گا اور تیسرے مرحلے میں ایچ آئی وی ایڈز بن جاتا ہے'۔