سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی گرفتاریوں کے بعد اچانک اب پنجاب کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کے گھر پر نیب ٹیم کے چھاپوں، چھٹی والے دن عدالت سے ضمانت کی منظوری اور حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف انٹر پول کے ریڈ وارنٹ کی حکومتی درخواست مسترد ہونے پر شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں۔
ان واقعات کی روشنی میں نجی ٹی وی چینلوں پر ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر بھی کھل کر ممکنہ سیاسی تبدیلیوں پر گفتگو شروع ہو گئی ہے۔
سنیچر کو حمزہ شہباز کے گھر پر نیب ٹیم نے گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ان کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے اس میں 17 اپریل تک توسیع بھی کر دی۔
نیب اور ہائی کورٹ کے درمیان حمزہ شہباز کی گرفتاری کے معاملے کو غیر معمولی تناؤ کے پس پردہ قوتوں کی مداخلت بھی سمجھا جانے لگا ہے۔ خاص طور پر کچھ عرصہ پہلے سینئر صحافی نجم سیٹھی کی اپنے ٹی وی شو میں وزیر اعظم عمران خان اور بااثر قوتوں (اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کی نشاندہی نے ان حالیہ واقعات کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔
نجم سیٹھی کا اپنے شو میں کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کی سزا کے دوران ضمانت منظور ہونے پر وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’بڑ بڑ‘ کی اور کہا کہ ’ایسے ملک چلانا ہے تو خود چلا لیں‘ جس کی خبر بااثر شخصیات تک پہنچ گئی۔
اس صورتحال پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومتی ایوانوں کی جانب سے شدید ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہائی کورٹ کے احکامات صرف عدالتی کارروائی نہیں اس کے پیچھے کچھ غیرمرئی طاقتیں بھی شاید سرگرم عمل ہیں۔
ایسے میں وزیراعظم اور پاک فوج کے سپہ سالار کے درمیان تواتر کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں بھی شکوک و شبہات میں اضافہ کر رہی ہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل ہوچکا ہے اور مستقبل کے منظرنامے میں پنجاب کے تخت کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ہوگا۔
تخت پنجاب پر قبضے کی کوششوں نے ہی پاکستان تحریک انصاف میں کھینچا تانی کی وہ کیفیت پیدا کی جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے دو بڑے رہنما جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی آمنے سامنے آگئے۔
مبصرین گذشتہ ہفتے شاہ محمود قریشی کی جانب سے ادا کیے گئے الفاظ کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
معروف صحافی نوید چودھری کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار منظر سے غائب ہیں اور ان کا غائب ہونا بھی اس خدشے کو تقویت دے رہا ہے کہ شاید کچھ قوتوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہی فیصلہ دوسرے تنازعات کا موجب بنا۔
اس وقت نیب کی جانب سے مسلسل دو روز کی کوششوں کے باوجود حمزہ شہباز کی گرفتاری میں ناکامی دراصل حکومت کے لیے ہزیمت کا باعث ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ہفتے عدالتی کارروائیوں کے دوران نون لیگ کو ملنے والے ریلیف کا تسلسل برقرار رہے گا یا حکومت ایک بار پھر معاملات پر قابو پالے گی۔