معروف صحافی ندیم ایف پراچہ نے جس بہادری سے 2013 میں ’ملالہ پر حملہ‘ کے پیچھے چھپی ’اصل کہانی‘ بےنقاب کی تھی وہ وطن سے ان کی بےلوث محبت اور پیشہ ورانہ صحافت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کان کا میل بھلا کس کام کا لیکن اسی کے ذریعے ملالہ کے پولینڈ والے ڈی این اے تک پہنچنے، آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی ملی بھگت سے جعلی حملے کا ڈراما رچانے اور اس ڈرامے میں ٹماٹو کیچپ کے استعمال جیسے انکشافات ندیم ایف پراچہ کی اس تحریر میں منظر عام پہ آئے۔ وہ تحریر آج بھی تحقیقاتی صحافت کے ماتھے کا جھومر ہے۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اپنے صحافتی پرکھوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے تمام ہم عصر صحافیوں پر فرض ہے کہ وہ ایسے انکشافات کرتے رہا کریں۔ عوام کو کہانی کا ایک ہی رخ کیوں دکھائیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم لاپتہ افراد، لاپتہ افراد کے اس شور غوغے کے بیچ اصل کہانیاں منظر عام پہ لائیں۔
ان سب لاپتہ افراد کی کڑیاں ملاتے جائیں، اصل کہانی کی جڑ تک پہنچنے میں آپ کو دیر نہیں لگے گی۔ ابھی چار روز پہلے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد گوندل کے اغوا کا بڑا شور اٹھا۔ نکلا وہ جس کا گمان تک نہ تھا۔ موصوف بیگم بچوں سے چھپ کر گلگت بلتستان کی وادیوں میں گھوم رہے تھے۔
سرِشام راول ڈیم کا نظارہ کرتے کرتے اچانک ہی پلان بن گیا۔ ساجد گوندل کے قریبی احباب کہتے ہیں کہ وہ گاڑی گھر لے جانا چاہتے تھے لیکن دوستوں کے پر زور اصرار اور شمالی پہاڑوں پر چھائے دل کش موسم کی پکار کو انکار نہ کرسکے۔گاڑی وہیں بیچ سڑک پہ چھوڑ کر دوست انہیں زبردستی لے گئے۔
ساجد گوندل جوان ہیں، سرکاری افسر ہیں اور بال بچے دار ہونے کے ساتھ ساتھ دوست یار والے ہیں۔ انہیں دوستوں سے اہم امور پر گپ شپ مقصود تھی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ چند حضرات بلتت فورٹ کی اونچائی پہ کھڑے ہوکر ٹائٹینک کا معروف گانا ’ایوری نائٹ ان مائی ڈریمز‘ گا رہے تھے۔ ان کے موبائل فون بند تھے۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ جولائی میں پیش آیا۔ گرمی کے ان مہینوں میں کون ظالم ہوگا جو قدرتی آبشاروں کے نیچے بنیان پہن کر پبلک میں نہانے کا لطف نہ اٹھائے۔ جولائی کے آخری عشرے میں چند صحافی شور مچانے لگ گئے کہ صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا کر لیے گئے۔
مطیع اللہ جان کے اغوا کے فوراً بعد سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج سامنے آ گئی کے چند گاڑیوں پر مشتمل قافلہ ان کی بیگم کے سکول آیا اور مطیع اللہ کو ساتھ بٹھا کر چلتا بنا۔ تاہم ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیمیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ گاڑیوں کا وہ قافلہ ایک معروف ٹریول اینڈ ٹور ایجنسی کا تھا۔ اسلام آباد کے سیف سٹی کیمرے اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ ٹور ایجنسی کافی دیر سیاحت کے شوقین مطیع اللہ کو اسلام آباد کی سڑکیں دکھاتی رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سچ تو یہ ہے کہ یہاں صحافی بازیابی کے لیے سوشل میڈیا پر گلے خشک کرتے رہے وہاں مطیع اللہ جان بھی ساجد گوندل کی طرح اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر گرمی کے لمبے دن جھیلوں، آبشاروں کی صحبت میں گزار آئے۔
اسی ٹریول اینڈ ٹورز ایجنسی سے منسلک ایک ٹور گائیڈ نے بتایا کہ مطیع اللہ جان جوکہ بنیادی طور پر بہت ایڈونچر پسند واقع ہوئے ہیں بہت منع کرنے کے باوجود جھیل میں تیرنا چاہتے تھے۔ اسی اثنا میں کنارے پتھر کی چکنی سل پہ پاؤں پڑنے سے پھسل گئے، انہیں جسم پہ معمولی چوٹیں اسی سبب آئیں۔ ایک تو اونٹنی ہو ہی دوانی، اوپر سے گھنگھرو اور باندھ لے۔ خیر کرایہ پورا ہونے پر ٹریول اینڈ ٹور والے انہیں اٹک کی زرعی زمین کے قریب اتار گئے۔
سچ کے متلاشیوں کے لیے انکشافات کا یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔ احمد نورانی کا نام تو سن رکھا ہوگا؟ وہی پاپا کے پیزا والی سٹوری دینے والے احمد نورانی۔ ان کی اپنی سٹوری بھی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ سچ کیا تھا بنا دیا کیا۔
ملک میں صحافتی اقدار کی لاج رکھنے والے ایک اخبار نے تو اگلے ہی دن سچ بتایا کہ احمد نورانی کو جس لڑکی سے عشق تھا اس کے بھائیوں نے کہیں آبپارہ، اسلام آباد کے قریب دوچار ہاتھ لگا دیئے۔ جو انکشاف اس خبر میں ہونے سے رہ گیا تھا وہ یہ ہے کہ باخبر ذرائع کے مطابق لڑکی کے ایک وقار بھائی ہیں جو دراصل احمد نورانی کو دارالشفائے عشق لے جانا چاہتے تھے تاہم ہر مریض عشق کی طرح انہوں نے بھی مزاحمت کر دی، وقار بھائی اب بھی موقعے کی تاک میں ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے تلی ہوئی پلا بیچنے والے ایک مچھلی فروش نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ جب کراچی سے غائب ہونے والے سماجی کارکن سارنگ جویو کے اغوا کی خبریں گردش کر رہی تھیں عین اسی وقت سارنگ بمعہ ساتھیوں کے حیدر آباد کے قریب ہوٹل میں کچہری لگائے بیٹھے تھے۔ مچھلی فروش نے ذہن پہ زور ڈالتے ہوئے بتایا کہ سارنگ اور دوستوں نے تین کلو تلی ہوئی پلا اور تین کلو پمفریٹ مچھلی کا آرڈر دیا تھا جبکہ ان کی سیاہ رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی سڑک کے دوسری جانب کھڑی تھی۔
ہم نے تو مختلف اداروں میں موجود اپنے ذرائع کی مہربانیوں سے لاپتہ افراد کے اہم مقدمات کی گتھی سلجھا لی۔ پولیس کو مشورہ ہے کہ وہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کو دریائے کنہار کے کنارے ڈھونڈیں، ہو سکتا ہے کراچی سے لاپتہ لونڈے بھی ناران کاغان میں مٹر گشتی کرتے مل جائیں۔
تحقیق کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ لاپتہ ہونا سیر و سیاحت کے شوقین افراد کی شرارت ہوتی ہے۔ گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو چاہیے کہ اپنے لڑکوں کے سیر سپاٹوں پر پابندی نہ لگائیں۔ کیا فائدہ جو ملک کی بدنامی ہو؟ انتھک تحقیقات کے بعد سامنے آنے والے ان انکشافات سے واضح ہے کہ اپنی مرضی منشا سے لاپتہ ہونے والے افراد کو جبری گمشدہ کہنا درست نہیں۔