امریکی محکمہ انصاف نے الجزیرہ کے ذیلی ادارے ’الجزیرہ پلس‘ (اے جے پلس) کو حکم دیا ہے کہ وہ قطری حکومت کی ایما پر ’سیاسی سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے پر بطور غیر ملکی ایجنٹ رجسٹریشن کروائے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ حکم امریکی کانگریس ارکان کی جانب سے الجزیرہ کو بطور غیر ملکی ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹر کروانے کے مطالبے کے کچھ ماہ بعد سامنے آیا ہے۔
'اے جے پلس' نوجوانوں کے لیے ایک نیٹ ورک ہے جو کہ سوشل میڈیا کے لیے مختص ہے۔ اس پر انگریزی، عربی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبان میں ویڈیوز پیش کی جاتی ہیں۔
پیر کو امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ قطر اس چینل کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے جبکہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی بھی قطر کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈویژن کے سربراہ جے آئی بریٹ کے دستخط شدہ خط کے مطابق: ’ایسی صحافت جو امریکی عوام کے اندرونی اور خارجہ پالیسی یا رہنماؤں کے حوالے سے موجود تصورات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے تعریف کے مطابق ’سیاسی سرگرمی‘ کہلاتی ہے۔ چاہے یہ متوازن ہی کیوں نہ ہو۔‘
یہ خط امریکی میگزین ’مدر جونز‘ نے پہلے حاصل کیا۔
عرب نیوز کے مطابق الجزیرہ کو قطر کے حکمران خاندان کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے جو کہ اخوان المسلمون اور دوسرے دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔
سال 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کیے تھے اور الجزیرہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔
'اے جے پلس' ہمیشہ ہی تنازعات میں الجھا رہا ہے۔ اس کے عربی چینل پر ہولوکاسٹ کے حوالے سے ویڈیو ریلیز کرنے اور یہودیت مخالف مواد پوسٹ کرنے پر بھی تنقید کی گئی تھی۔
اس ویڈیو میں کہا گیا تھا کہ یہودی ہولوکاسٹ کے حوالے سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اس کا ’سب سے زیادہ فائدہ‘ اسرائیل کو ہوتا ہے۔
آن لائن اخبار ’دا نیشنل‘ کے مطابق 'الجزیرہ پلس' کے ہی جڑواں ادارے 'الجزیرہ امریکہ'، جو اگست 2013 میں لانچ ہوا تھا، کو 2016 میں کم ریٹنگز، ہراسانی اور یہودیت مخالفت مواد دکھانے پر امریکہ میں بند ہونا پڑا تھا۔