نہ جانے کیوں گذشتہ دنوں ایک قبائلی نوجوان سے ملاقات کے دوران ماضی قریب میں جنگ سے بدحال اس خطے کے شدت پسند نوجوان یاد آگئے۔ نیک محمد اور حکیم اللہ محسود جیسے نوجوان جو اس علاقے میں شدت پسندی کی آگ کا ایندھن بن گئے۔
پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں میں 2002 سے 2009 تک شدت پسندی کی لہر کی فیلڈ کوریج کے دوران کیسے کیسے نوجوانوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ شکل وصورت سے بھی ویسے ہی انسان تھے جیسے آج کے یہ نوجوان، لیکن دونوں کی سوچ اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ایک بندوق کے زور پر ’دفاعی جہاد‘ کا جواز دیتا تھا دوسرا ’پرامن تحریک‘ کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ بات میں دونوں کی کاٹ تھی لیکن ایک کے نظریے کی بنیاد، درست یا غلط الگ بحث ہے، مذہب تھی اور دوسرے کی بنیاد اپنی قوم کا درد ہے۔ نیا بیانیہ تلخ ضرور ہے لیکن ناقابل برادشت نہیں۔
قبائلی علاقوں کے ساتھ جو پہلے دن سے ہوا آخر کسی نے تو اٹھ کر بولنا تھا۔ بندوق اٹھانے کا بھی حشر دیکھ لیا سب نے تو کیا اب بات چیت زیادہ مناسب راستہ نہیں مسائل کے حل کے لیے؟ ان میں سے کون پاکستان کے لیے اچھا ہے؟
یہ تمام سوالات پشتون تحفظ موومنٹ کے چیئرمین منظور پشتین سے اسلام آباد میں پہلی ملاقات کے دوران ذہن میں گھومتے رہے۔
جب تک فیلڈ میں بھاگ دوڑ کرتے رہے تو قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کے دوران نوجوانوں کے ساتھ ملاقات اور بات ہوتی رہی لیکن پی ٹی ایم کے 2017 میں وجود میں آنے کے بعد سے اس ملاقات تک کبھی منظور پشتین سے ون ٹو ون ملاقات کا موقع نہیں ملا۔ آخر ایک دوست گوہر محسود سے درخواست کی اور فورا وقت مل گیا۔
سوال آیا ملاقات کہاں کی جائے؟ فی الحال نہ ان کا کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ ہمارا۔ کووڈ 19 کی وجہ سے دفتر میں مہمانوں کے آنے کی ابھی اجازت نہیں۔ فیصلہ ریستوان کا ہوا لیکن تلاش ایسے ہوٹل کی تھی جہاں سیلفی کے دائمی متلاشی ان کے مداح بات چیت میں خلل نہ ڈالیں۔ خیر، مقام کا تعین ہوا اور وقت مقرر پر منظور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔
انہیں ’لائیو‘ دیکھا تو قبائلی علاقے یاد آئے جہاں سیدھی سڑک پر میلوں دوڑتی گاڑی سے آپ کو کبھی خشک اور کبھی سرسبز وادیاں تو دیکھنے کو ملتی ہی تھیں لیکن آس پاس نوجوان اور بڑے بوڑھے کندھے سے لٹکی سجی سجائی بندوق اور ہاتھ میں ٹرانسسٹر ریڈیو بھی لیے دکھائی دیتے۔ کبھی کبھی یہ نوجوان فراٹے بھرتی گاڑیوں کو محض اپنی سگریٹ جلانے کے لیے ماچس کی طلب میں روک لیتے تھے۔ بات ہوتی تو کوئی ریاست سے تنگ تو کوئی سیاست سے تنگ۔
لیکن ایک بات جو سب میں یکساں اور کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ ان کی اپنی شناخت، اپنی ذات اور اپنی زمین سے محبت تھی۔
منظور پشتین بھی پہلی نظر میں ویسا ایک نوجوان محسوس ہوا۔ ہاں اس جوان کے پاس نہ تو بندوق ہے اور نہ ہی ریڈیو، دو موبائل فون ضرور تھے۔ وہ بھی کوئی مہنگے نہیں انتہائی عام سے۔
یہ وہ نوجوان ہے جس پر یقینا پاکستانی ریاستی اداروں کی گہری نظر ہے۔ اس کی ایک ایک ملاقات اور بات، اس کے اخراجات اور تحریک کے فنڈز سب مسلسل کھنگالے جاتے ہیں۔
ویسے تو وہ ’ایک کرشماتی لیڈر‘ کے طور پر ابھر رہے ہیں جن کی جوشیلی تقاریر بڑی تعداد میں قبائلیوں کے دلوں میں گھر کر رہی ہیں۔ لیکن نجی ملاقات میں وہ انتہائی دھیمے لہجے اور ٹھہراؤ کا مجموعہ لگتے ہیں۔
ملاقات شروع ہوئی تو مجھ سے زیادہ وہ سوال پوچھنے لگے۔ پھر ایک مقام پر خود ہی بتا دیا کہ انہیں بچپن سے سوال پوچھنے کی عادت ہے۔ میں نے کہا پھر آپ صحافی اچھے بن سکتے تھے تو سب مسکرا دیئے۔ کہنے لگے ان کے علاقے میں جب سڑک پر ’آگے موڑ ہے‘ جیسے بورڈ لگے تو انہوں نے اپنے والد سے پوچھا کہ اس کی کیا ضرورت ہے سب مقامی لوگوں کو معلوم ہے کہ اس مقام پر سڑک پہ موڑ ہے۔ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو غیرمقامی افراد کی رہنمائی کے لیے تھے۔
پی ٹی ایم کی ٹریڈ مارک میرون کیپ پہنے منظور سے توقع تھی کہ وہ ماضی میں مجھے ریڈیو پر شدت پسندی کی کوریج کے دوران سننے کی بات کریں گے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ جس سے میں تو شاید یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہوں گا کہ وہ قبائلی علاقوں میں ماضی میں خبروں کا سب سے بڑا ذریعہ ریڈیو نہیں سنتے تھے۔
اس پہلی ملاقات میں شاید وہ کافی ’ریزرو یا محتاط‘ رہنے کی کوشش میں تھے، اس لیے۔ ان پر تمام میڈیا چاہے وہ قومی ہو یا بین الاقوامی، سب کا ایک ہی تاثر تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں ’ڈنڈی‘ ضرور مارتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس قسم کی ان کی نقل و حرکت اور بیانات کی بظاہر نگرانی ہو رہی ہے اس سے لگا کہ نمٹنے کے لیے وہ بھی اتنے ہی محتاط ہیں۔
نہ متنازع شخصیات سے اور نہ ہی غیرملکی سفرا سے وہ ملتے ہیں۔ بیان بھی وہ پھونک پھونک کر اور ساتھیوں سے مشورے کے بعد دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ایک غلط بیان یا حرکت ان کی اب تک کی ساری محنت بھسم کرسکتی ہے۔ غیرملکی امداد کا الزام تو ہے لیکن ثابت نہیں ہو سکا۔ ہر تنظیم کی طرح اب اس تنظیم کے اندر کھینچا تانی کے اطلاعات ہیں۔ امید ہے منظور پشتین اسے یکجا رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔ آخر ان کا مقابلہ کسی آسان فریق کے ساتھ نہیں۔
چائے کی پیشکش کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ چائے نہیں پیتے۔ انہوں نے فریش جوس جبکہ ہم نے چائے پر اکتفا کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی گپ شپ کے بعد اختتام ملاقات اس بات پر ہوا کہ دوبارہ زیادہ تفصیلی مجلس کھانے پر ہوگی اور اس میں انہوں نے ایک سینیئر صحافی کو مدعو کرنے کی درخواست بھی کی۔
میرا خیال تھا ان صحافی سے وہ کب کے مل چکے ہوں گے لیکن ایسا شاید ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ اگر وہ صحافی و اینکر یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو دعوت کے منتظر رہیے گا جلد ملنے والی ہے۔
ایک وہ زمانہ تھا جب سابق فاٹا پر شدت پسندی کا آسیب تھا۔ جب بین الاقوامی سیاست کے گٹھ جوڑ نے اس کے نوجوانوں کو بار بار اسلحہ اٹھانے پر مجبور کیا۔ کبھی روسی بھالوں کو ’بلیڈ‘ کرنے کے لیے پشتون کام آئے اور کبھی امریکہ جیسی خارجی قوت کو ملک سے نکالنے کے لیے انہیں استعمال کیا گیا۔ لیکن اب ایک امید پیدا ہوئی ہے۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے بس بھئی بس۔ پشتون مزید استعمال نہیں ہوگا۔ پشتون اب جہالت، پسماندگی اور بےروزگاری سے لڑے گا اور کسی سے نہیں۔
خطرہ اب بھی موجود ہے کہ پی ٹی ایم کا بیانیہ کئی بین الاقوامی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کے ایجنڈوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ اسے ہائی جیک کرنے کی پوری کوشش کریں گی۔ اب ذمہ داری منظور اور دیگر پی ٹی ایم رہنماؤں کی ہے کہ وہ ایسا نہ ہونے دیں۔
یہ خطہ اب اسلحے کی نوک پر اپنے مسائل کا حل نہیں چاہتا بلکہ دلیل اور وکیل سے یہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ تبدیلی لایا کون؟
مجھے معلوم ہے کہ اس مضمون کی اشاعت پر سوشل میڈیا پر کیسا ردعمل سامنے آئے گا۔ ’غدار‘ اور ’نمک حرام‘ کے الزامات اور طعنوں کی بوچھاڑ ہوگی۔ لیکن کیا ایسا کرنے سے پی ٹی ایم کو کوئی فرق پڑے گا شاید نہیں۔ لہذا دماغ کی تمام کھڑکیاں کھولیں، برداشت پیدا کریں اور بات سنیں۔ گالیاں براہ مہربانی نہ دیں۔